(قسط 1)
ایک مومن کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ روزی روٹی کا مالک اللہ کی ذات ہے، رزق رسانی اسی کے دستِ قدرت میں ہے، زمین کی پشت پر چلنے والے چرندے ہوں یا فضا میں اڑنے والے پرندے، سمندری مخلوقات ہوں یا زمینی حیوانات ہر ایک مخلوق تک رزق پہنچانے کی ذمہ داری اسی کی ہے، اس قسَّام ازل نے ہر ایک کا رزق متعین کر دیا ہے، جو اسے مل کر رہےگا، ممکن نہیں کہ کوئی مخلوق اپنے حصے کا رزق پائے اور کھائے بغیر مر جائے۔ (وان الروح الامین قد نفث فی روعی ان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقہا ... الحديث)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللہِ رِزْقُهَا. ترجمہ: روئے زمین پر چلنے والوں جانداروں میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ (ہود)
لیکن ایک مومن کی شان یہ ہو کہ جب اسے رزق کی فراوانی حاصل ہو تو اسے اپنے خالق و رازق کا احسان و کرم سمجھے اور سجدۂ شکر بجا لائے، اور جب تنگیِ رزق کا سامنا ہو تو اسے اپنے خالق کی حکمت و مصلحت گردانے اور صبر و رضامندی کا مظاہرہ کرے۔
رزق کی تنگی یا معاشی مندی کیوں پیش آتی ہے؟
ہمارے مسائل کی حقیقی وجوہات و اسباب وہی ہیں جو شریعت مطہرہ میں بیان کئے جاتے ہیں اور اس بات کو حقیقی ماننا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
گناہوں کے سبب :
انسان جب بہ کثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے رزق میں بےبرکتی اور تنگی پیدا ہو جاتی ہے؛ حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لا یَزِیْدُ فِیْ الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ وَلَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیْبُہُ . ترجمہ: نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۴۰۲۲)
مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ تمام ہی گناہ تنگیِ رزق و مندئ معاش کا باعث بنتے ہیں؛ لیکن کچھ ایسے گناہ ہیں جن کے متعلق خاص طور پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کی وجہ سے رزق میں تنگی اور کاروبار میں مندی پیدا ہوتی ہے۔
جاری -------
پانچ گناہ اور ان کے خصوصی اثرات :
_____________________
0 تبصرے