فتنۂ عصبیت کا خطرناک رخ اور غیرتِ رسول ﷺ




دوسری اور آخری قسط
(علماء اور سنجیدہ افراد کی خدمت میں)
✍️ نعیم الرحمن ندوی

   اسلام لوگوں کو جوڑتا ہے اور قوم و وطن ہر چیز پر غالب آکر لوگوں کو باہم گلے لگواتا ہے، خون کے پیاسوں کو ایک دوسرے کے لیے جان دینے والا بناتا ہے لیکن عصبیتِ جاہلہ اس کے برعکس کرتی ہے، وہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے لڑاتی ہے، ایک کو دوسرے کے خون کا پیاسا بناتی ہے اور امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے، اس طرح عصبیت؛ اسلام کی جڑ کاٹتی ہے۔

فتنۂ عصبیت کا خطرناک رخ :
     اس فتنے کا ابتدائی مرحلہ ایسا ہوتا ہے کہ عصبیتِ جاہلہ کی چنگاری معاشرے میں راکھ تلے دبی ہوتی ہے یعنی انفرادی سطح پر ہوتی ہے، بلا تفریق برادری و قبیلہ، ہر برادری میں سو پچاس میں دو چار لوگ اس ذہنیت کے ہوتے ہیں جن میں عصبیت کے جراثیم پنپ رہے ہوتے ہیں لیکن جب اس فتنۂ عصبیت کو اجتماعی شکل دی جاتی ہے اور دبی چنگاری کو شعلہ جوّالہ بنا دیا جاتا ہے تو یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب فتنۂ عصبیت خطرناک رخ اختیار کرتا ہے اور یہاں سے عصبیت کا عفریت بے قابو ہوجاتا ہے اور امت کی اجتماعیت کو شدید نقصان پہنچاتا ہے، اس کے شیرازے کو بکھیر دیتا ہے اور پھر وہ ہوتا ہے جو پڑوسی مسلم ملکوں کی المناک تاریخ کا حصہ ہے جسے مفکر اسلام حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیشتر خطابات اور اپنی کتابوں میں بڑے درد و کرب اور حسرت و افسوس کے ساتھ ذکر کیا ہے اور مسلمانوں کو اس سے بیدار رہنے اور چوکنا رہنے کے لیے جھنجوڑا ہے۔

غیرتِ رسول ﷺ : 
    اسی مرحلے پر نبی رحمت ﷺ کی غیرت بھڑکی ہے اور آپؐ کی زبان مبارک سے انتہائی غضبناکی ظاہر ہوئی۔ آپؐ نے عصبیت کی پکار پر لبیک کہنے سے بھی منع فرمایا اور عصبیت کا نعرہ دینے والے کو جواب دینے کے لیے بھی انتہائی حد تک جانے کی اجازت دی۔ کوئی شریف النفس اور کریم الطبع انسان ہو، حلم و بردباری، رأفت و رحمت اس کی نمایاں صفات ہوں لیکن بات؛ جب اس کی غیرت پر آئے، حرف؛ اس کی عزت پر آئے تو اس کا غیظ و غضب بھڑکنا فطری ہے، یہ فطری ردِّعمل اس کا نقص نہیں؛ کمال ہے، اس کا عیب نہیں؛ ہنر ہے۔ ایسے ہی نبئ رحمتؐ کے لیے بھی ایک بات غیرت کو بھڑکانے والی ہے، آپ کو انتہائی صدمہ پہنچانے والی اور بڑی غضبناک کرنے والی ہے، اِس پر آپؐ کی جانب سے غضب و غیرت ظاہر کرنے والی ایسی بات کہی گئی ہے جو کسی اور کام، کسی اور بات پر آپؐ سے صادر نہیں ہوئی حتی کہ نماز، روزہ جیسے اہم فرائض کے معاملے میں بھی نہیں، وہ بات امت کے شیرازے کو بکھیرنے والی، امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والی یہی "اجتماعی عصبیتِ جاہلہ اور اس کی پکار" ہے۔

جاہلی پکار پر لبیک نہ کہیں! :
     آپ ﷺ نے پہلے تو اس پکار کو "گندی اور بدبودار" کہا تاکہ اس پکار پر لوگ کان نہ دھریں، اس پر لبیک کہتے ہوئے دوڑے دوڑے جمع نہ ہوجائیں، آپ ﷺ نے فرمایا "دَعُوْھا فإنها مُنتنۃ وفی روایۃ فإنها خبیثۃ : اس نعرے کو چھوڑ دو یہ بدبودار ہے، یہ بڑا گندا ہے۔"
    واقعی عصبیت اور برادری واد کا نعرہ؛ گندا اور بدبودار نعرہ ہے، اس طرح کے اجتماع میں پھر بدبودار باتیں ہوگی، بدبودار خیالات جنم لیں گے، سماج میں بدبو پھیلے گی، امت کی اجتماعیت کی خوشبو ختم ہوگی، سماج میں گھٹن ہوگی، نفرت ہوگی، محبت اور ایمانی رشتے کی مٹھاس ختم ہوجائے گی، نتیجہ تصادم، ٹکراؤ اور امت کا بکھراؤ ہوگا۔ معاذ اللہ

جاہلی پکار لگانے والے کو کیا جواب دیں؟:
    دوسرے ایسی پکار لگانے والے کو جو جواب دینے کی ہدایت فرمائی وہ بڑا غیرت والا ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ و بیان میں، آپ فرماتے ہیں " رسول اللہ ﷺ کو ان جاہلی نسبتوں اور ان کے نام پر اپیل کرنے اور ان کی دہائی دینے سے ایسی نفرت تھی کہ آپؐ نے ان سے کام لینے والوں کی ہر طرح سے ہمت شکنی اور توہین و تذلیل کی ہدایت فرمائی اور باوجود اس کے کہ آپ کسی بڑے سے بڑے دشمن کے لیے بھی کوئی درشت، ناملائم لفظ استعمال کرنا پسند نہیں فرماتے تھے، آپؐ نے سخت ترین الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس میں مطلق رو رعایت کرنے اور اشارے کنائے سے کام لینے سے بھی منع فرمایا۔ " (لسانی اور تہذیبی عصبیت)
    " آپ ﷺ نے فرمایا : من تعزّی علیکم بعزاء الجاہلیۃ فأعضِّوہ بھن أبیہ ولاتکنوا. (مشکوٰۃ جلد دوم باب العصبیۃ) آپ ﷺ نے یہ بات کہی ہے کہ جو تمہارے سامنے جاہلیت کا نعرہ لگائے اس کو اس کے باپ کی گالی دو اور اشارے کنائے سے بھی کام نہ لو، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں نماز چھوڑنے پر یہ نہیں فرمایا ، میں قسم کھا کر کہتا ہوں آپؐ نے کسی نفل چیز چھوڑنے پر یہ نہیں فرمایا .... جو تمہارے سامنے نعرہ لگائے، جاہلیت کی نسبت کرے، یا آلَ بنی ہاشم! یا آل فلاں! یا آل فلاں! کہے، تم اس کو اس کے باپ کی کھلی ننگی گالی دو، أعضوہ بھن أبیہ : "ھن" کے معنی مَیں اس مہذب مجلس میں نہیں کر سکتا ... اُس کے باپ کی شرمگاہ کی گالی دو! ولا تکنوا : اشارے کنارے سے بھی کام نہ لو، کہہ دو "اے حرام زادے! تو کیا کہہ رہا ہے؟" بس میں نے آخری لفظ کہہ دیا۔ یہ ہے غیرتِ نبویؐ اور اس غیرتِ نبویؐ پر جن قوموں کی تربیت ہوتی ہے ان کو کوئی بڑے سے بڑا شاطر؛ آلۂ کار تو بنا لے اپنی اغراض خبیثہ کے لیے، _ ان کو! اسلام کے مقابلے میں کھڑا تو کر دے! اس کا خون پی جائیں گے اور کبھی اس کا آلۂ کار نہیں بنیں گے۔" (حوالہ آؤڈیو: لسانی اور تہذیبی عصبیت 30:00 تا 31:50 منٹ)

برادری واد کا نعرہ لگانا؛ مسلم سماج میں گالی کھانا ہے :
      اگر کوئی برادری واد کا نعرہ لگاتا ہے تو گویا وہ مسلم سماج میں گالی کھانے والا کام کر رہا ہے اور ایسے شخص کو اس کے باپ کی ننگی کھلی گالی دینے کا حکم ہے، اسے حرام زادہ کہا جائے یعنی نکاح کے بغیر؛ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا، حرام کا جنا ہوا ___ مراد یہ ہے کہ جس طرح کسی ماں نے یا کسی باپ نے نکاح کرکے، حلال ذریعہ پانے کے باوجود خیانت کی جس کے نتیجے میں ولد الزنا کا وجود ہوا، ایسے ہی یہ حرامزادہ؛ عصبیت کے نعرے و پکار پر اپنے لوگوں کو جوڑ رہا ہے، امت محمدیہ کو توڑ رہا ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود؛ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیانت کر رہا ہے، گویا خیانت اس کے خمیر و نطفے میں شامل ہے۔

فتنۂ عصبیت کی روک تھام فرد کی سطح پر :
      ضروری ہے کہ اس فتنے کے پیر پھیلانے سے پہلے اس کے تدارک کی فکر کی جائے، اس کے اسباب و علل پر غور کرکے دور کرنے کی سنجیدہ عملی کوششیں ہوں۔ وہ کون سی خرابیاں ہیں جو اس فتنے کو سر اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں حضرت جی مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری خطاب میں فرمایا ہے : "یاد رکھو امت پنے کو توڑنے والی چیزیں معاملات اور معاشرت کی خرابیاں ہیں، ایک فرد یا طبقہ جب دوسرے کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کرتا ہے اور اسکا پورا حق اس کو نہیں دیتا یا اس کو تکلیف پہنچاتا ہے یا اس کی تحقیر اور بے عزتی کرتا ہے تو تفریق پیدا ہوتی ہے اور امت پنا ٹوٹتا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ صرف کلمہ اور تسبیح سے امت نہیں بنے گی، امت معاملات اور معاشرت کی اصلاح سے اور سب کا حق اداکرنے اور سب کا اکرام کرنے سے بنے گی بلکہ جب بنے گی جب دوسروں کے لئے اپنا حق اور اپنا مفاد قربان کیا جائے گا۔" (امت بننے کی دعوت)
      زبان کی بے لگامی کے نقصان پر فرماتے ہیں۔ " امت کے بنانے اور بگاڑنے میں، جوڑنے اور توڑنے میں سب سے زیادہ دخل زبان کا ہوتا ہے، یہ زبان دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور پھاڑتی بھی ہے، زبان سے ایک بات غلط اور فساد کی نکل جاتی ہے اور اس پر لاٹھی چل جاتی ہے اور پورا فساد کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک ہی بات جوڑ پیدا کردیتی ہے اور پھٹے ہوئے دلوں کو ملا دیتی ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ زبانوں پر قابو ہو اور یہ جب ہو سکتا ہے جب بندہ ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ خدا ہر وقت اور ہر جگہ اس کے ساتھ ہے اور اس کی ہر بات کو سُن رہا ہے۔"

فتنۂ عصبیت کے پنپنے کا سبب :
     فتنۂ عصبیت کے کسی قوم میں اجتماعی شکل اختیار کرلینے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ... اس کی عمومیت و وسعت بتاتی ہے کہ قوم میں پہلے سے اس بیماری کے جراثیم موجود تھے اور اس قوم کی اسلامی تعلیم و تربیت میں ضرور کچھ ایسی خامیاں رہ گئیں جس کی وجہ سے یہ روزِ بد دیکھنا پڑا۔میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ اس قوم میں صحیح دینی شعور کی کمی تھی، قلب کے ساتھ دماغ کا مومن ہونا بھی ضروری ہے، تنہا اسلام کی محبت کافی نہیں اس کے ساتھ خلافِ اسلام فلسفوں اور دعوتوں کی نفرت بھی لازمی ہے۔ اور جاہلیت سے صرف جذباتی نفرت کافی نہیں ایک مسلمان کے لیے جاہلیت کی صحیح معرفت بھی ضروری ہے وہ کبھی اس کے بارے میں دھوکا نہ کھائے، اگر جاہلیت؛ غلافِ کعبہ اوڑھ کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر آئے جب بھی وہ لاحول پڑھے اور اس سے پناہ مانگے وہ کسی بھیس میں اس کے سامنے آئے تو وہ اس کو پہچان جائے اور اس کو مخاطب کر کے کہیں _ بہ ہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش * من اندازِ قدت را می شناسم
(جس رنگ و روپ میں آ، میں تیرے سراپے، تیری اصل سے بخوبی واقف ہوں)" 

علماء بھی اس فتنے سے محفوظ نہیں :
    عصبیت؛ قلب کا مرض ہے، کبر و نخوت، بغض و نفرت، حقد و حقارت اس کے عناصر ہیں، یہ دلوں میں جڑ پکڑتا ہے پھر اس کی عفونت و گندگی زبانوں سے ظاہر ہوتی ہیں، ارشاد باری ہے " قد بدت البغضاء من أفواھھم وما تخفی صدورھم أكبر" __ یہ صرف اَن پڑھ عوام کو نہیں؛ اہل علم کو بھی اپنا شکار بناتا ہے، مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "شیطان کی حکمتِ عملی اور جنگی سیاست یہ ہے کہ وہ مسلمان میں جو کمزور پہلو دیکھتا ہے اسی طرف سے حملہ آور ہوتا ہے، وہ ہر طبقے اور ہر فرد پر ایک ہی طریقہ اور ایک ہی ہتھیار نہیں آزماتا، وہ دینداروں اور عابدوں کو عوام کے درجے کے فسق و فجور کی ترغیب نہیں دیتا کہ اس میں اس کو کامیابی کی امید نہیں، وہ ان کو ریا، تکبر، خود پسندی، حبِّ جاہ اور حسد جیسے امراض میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے، حکومت و اقتدار کی ہوس، قومی سربلندی اور اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دینا اور اپنے اوپر خود حکومت کرنا یہ وہ خوشنما اور دلفریب مقاصد اور یہ وہ دلکش اور شیریں خواب ہیں جن کے بڑے بڑے اہل علم اور بعض اوقات بڑے بڑے دین دار بھی فریفتہ ہو جاتے ہیں۔" (لسانی و تہذیبی جاہلیت کا المیہ)

آخر میں عرض ہے :
      شہر عزیز مالیگاؤں میں فتنۂ عصبیت ایسا خطرناک رخ اختیار کرجائے اس بات کا بہت قوی اندیشہ ہے اور یہ بڑی تشویش ناک بات ہوگی، اگر مستقبل میں فتنۂ عصبیت مزید پھلتا پھولتا ہے، ناخوشگوار واقعات جنم لیتے ہیں تو "اوائل مالیگاؤں" جیسی تاریخِ شہر میں، اس فتنے کے اجتماعی پھیلاؤ میں، شہر کے انتخابی ماحول کا ضرور ذکر ہوگا، إلّا یہ کہ شہر کے سنجیدہ، فکرمند اربابِ حلّ و عقد اس خطرناک فتنے کے بڑھتے قدم کو روک لیں، اور تاریخ کے دھارے کو صحیح رخ دیں۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلاکے سرِ عام رکھ دیا


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے