(علماء اور سنجیدہ افراد کی خدمت میں)
✍️ نعیم الرحمن ندوی
اچھی یا بری تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، آنکھوں والے اسے دیکھتے اور عقل والے اسے سمجھتے ہیں، اچھی تاریخ دہرانے میں اپنا حصہ لگاتے اور بری تاریخ سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔
تاریخ مدینۃ النبیؐ اور تاریخ شہر مالیگاؤں:
اسلامی دور کے آس پاس؛ مدینہ منورہ کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جلی نقوش جو ابھر کر آتے ہیں وہ یہ کہ مدینہ منورہ سکونت کے اعتبار سے اپنے باشندوں کے لیے ہجرت گاہ رہا ہے، یہودِ مدینہ بھی کنعان اور اطراف کے علاقوں سے آکر بسے تھے، انصارِ مدینہ اوس و خزرج؛ یمن سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے اور مکہ کے مہاجرین تو پھر مہاجرین ہیں ہی، یہ تین قومیں مدینہ کے باشندے تھے جو اصل میں کہیں سے آ آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہودِ مدینہ سازشی ذہن اور سودی تجارت کے شوقین، دولت اور اقتدار کے طلبگار؛ نفس و شیطان کے آلہ کار، بھولے بھالے انصارِ مدینہ پر چھا گئے اور انصار کے قبیلے اوس و خزرج کو لڑا بھڑا کر انگریزوں کی طرح "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی پالیسی پر گامزن رہے لیکن پھر اسلام کی آمد اور نبی علیہ السلام کی بعثت و ہجرت نے ان کی ساری شطرنجی بساط لپیٹ کر رکھ دی، اسلام اور مسلمان وہاں اکثریت میں آگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں اخوت و بھائی چارہ اختیار کیا اور امن و امان، عدل و انصاف قائم کرکے نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کے لیے قابل تقلید نمونہ بنے۔ آج تاریخ اسلام میں مدینۃ النبی ﷺ اور ریاست مدینہ تا قیامت امن اور عدل کے لیے بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہیں۔
شہر کی امتیازی شان :
ایسے ہی شہر مالیگاؤں اصل میں ہجرت گاہ ہے، یہ شہر انگریزی دورِ حکومت اور اس کے عہدِ زوال سے مسلم اکثریتی علاقہ بنتا گیا، مختلف ادوار میں مختلف مسلم برادریاں مختلف علاقوں سے آ آ کر شہر میں آباد ہوتی گئیں، پہلے پہنچنے والے ہر آنے والے کے ساتھ مدنی اخوت و بھائی چارے کے طرز پر ایمانی بھائی چارہ اختیار کرتا اور اخوت ایمانی کے رشتے میں بندھ جاتا تا آنکہ ریاست مدینہ کی طرح ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شہر میں کچھ عرصہ ہی سہی خلافت بھی قائم ہوئی، اس شہر نے دینی اعتبار سے اطراف کے علاقوں میں مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کا تکفل کیا؛ دیہات کی مساجد میں ائمہ، مکاتب میں معلمین روانہ کیے، رمضان المبارک میں ائمہ تراویح بھیجتے رہے، تبلیغی جماعتوں کے وفود جا جا کر اصلاحی کوششیں کرتے رہے، جمعہ میں اور مکاتب کے سالانہ جلسوں میں شہر کے علماء خطابات کے لیے تشریف لے جاتے اور آج بھی یہ شہر عزیز مالیگاؤں؛ دیہاتوں اور مضافاتی علاقوں کے لیے مینارۂ نور ہے لیکن جس طرح مدینۃ النبی ﷺ کے مسلم معاشرے میں عصبیت کے زبردست حملے ہوئے؛ اس شہر میں بھی ہوتے رہے، جس طرح نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا توڑ کیا، علماء شہر بھی کرتے رہے۔
شہر کیلئے بڑا چیلنج :
ہمارے شہر کی بدقسمتی ہے یا بہت بڑا چیلنج اور امتحان کہ جب جب انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تب تب شہر میں جاہلی عصبیت بھڑک جاتی ہے، برادری واد کا الاؤ جل اٹھتا ہے اور اس آگ میں اخوتِ ایمانی سلگنے لگتی ہے، شریعت کے احکام شعلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ انتخابات ہمارے شہر کے لیے ایمان سوز، اسلام سوز اور اخلاق سوز فتنہ بن کر رہ گیا ہے، ساری اخلاقی قدریں سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اسلامی معاشرے، ایمانی رشتے اور امت کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے والی ؛ منافقت کے بعد سب سے خطرناک چیز؛ عصبیت ہے، اسی عصبیت کی دبی چنگاری کو ہوا دی جاتی ہے، پھر اس تپش میں پورا شہر اور اس کی دینی و ملی شناخت جھلس کر رہ جاتی ہے، عصبیت کی اس آگ کا ایندھن جہاں عوام ہوتے ہیں وہیں اہل علم طبقے کا بھی استحصال ہوتا ہے، لیکن شاید شہر کے لوگ اس فتنے کے خوفناک انجام کا احساس و ادراک نہیں رکھتے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلے کہ اس جاہلی عصبیت کے فتنے نے امت محمدیہ ﷺ کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کس قدر فکرمند اور کمر بستہ رہے، حتی کہ آخری خطبہ حجۃ الوداع میں اس جاہلی عصبیت کے خلاف آپ ﷺ نے صاف صاف اعلان بھی فرمایا۔
اسلام کی ساکھ کو زبردست نقصان :
فتنۂ عصبیت سے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ اسلام کو اور اسلامی کاز کو نقصان پہنچتا ہے، صرف مسلمانوں کی نہیں؛ اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور یہ سب سے بڑا نقصان وخسارہ ہے۔ بنگلہ دیش میں جب بنگلہ زبان اور اردو زبان کے سبب "لسانی اور تہذیبی عصبیت" کی بنیاد پر خونی سانحہ پیش آیا اور مسلمانوں ہی نے مسلمانوں کا گلا کاٹا، خون بہایا اور مسلمانوں ہی نے مسلمان عورتوں کی عزت و حرمت کو تار تار کیا۔ فساد کے بعد 1971ء میں کلکتہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے درمیان خطاب فرمایا، وہ خطاب کیا؛ درد وکرب تھا جو الفاظ میں ڈھل کر زبان سے جاری تھا۔ (خطاب پوسٹ سے منسلک ہے سماعت فرمائیں یا پڑھیں۔) اس میں آپ نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی: __ اس انسانی قتل عام، خون مسلم کی ارزانی، اور جانی ومالی نقصان پر جتنے آنسو بہائے جائیں کم ہے لیکن ان واقعات کا سب سے زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ "اس سے مخالفین کو اسلام کی ناکامی کے ثبوت کے لئے ایک دلیل ہاتھ آئی، اور انھوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام میں رابطہ بننے اور مختلف قوموں، اور نسلوں کو جن کی زبانیں اور رنگ و نسل مختلف ہیں، متحد کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ نیز یہ کہ اسلامی عقیدے پر کسی معاشرے، اورکسی ریاست کے قائم ہونے اور اگر قائم ہوجائے تو باقی رہنے کا امکان نہیں، یہ وہ معنوی خسارہ ہے جس کا کوئی خسارہ مقابلہ نہیں کرسکتا۔"
مسئلے کا حل :
اس کا واحد حل یہی معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر، ابھی یا کبھی؛ تمام برادریوں کے سرکردہ علماء اور سنجیدہ افراد سر جوڑ کر بیٹھیں، آپس میں گفت و شنید کریں، شکایتیں سنیں، انہیں دور کرنے کا لائحۂ عمل بنائیں، بین برادری بیشتر علماء آپس میں استاد و شاگرد اور پیر و مرشد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں، بیٹھیں تو یقینا کوئی نہ کوئی حل نکلے گا اور خیر وجود میں آئے گی۔
ضرورت ہے کہ موجودہ اکابر علماءِ شہر ؛ نائبینِ رسول ﷺ کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کے سدباب کی طرف متوجہ ہوں اور شہر مالیگاؤں کو مدینۃ النبی ﷺ کی طرح شاندار تاریخ دہرانے والا بنائیں، نہ کہ ماضی قریب میں پڑوسی مسلم ملکوں کی؛ عصبیت پر مبنی ناخوشگوار تاریخ کی طرف جانے دیں۔
_____________________
نوٹ :
فتنۂ عصبیت کی سنگینی کا احساس و ادراک کرنے کے لیے
علماء، ائمہ اور شہر کے سنجیدہ افراد!
پڑھیے! مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی تحریر کو، سنیے! آپؒ کے خطاب کو یوں محسوس ہوگا کہ آپؒ کسی مسلم ملک میں نہیں؛ شہر مالیگاؤں میں شہر کے دانشور و ذمہ دار طبقے سے مخاطب ہیں۔ اس موضوع پر یہ انتہائی جامع خطاب ہے، کتابی شکل pdf میں بھی پیش ہے۔ "لسانی و تہذیبی جاہلیت کا المیہ"
دعوت و تبلیغ کے احباب !
تبلیغی جماعت کے بڑے حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خطاب `*مسلمانوں کو اُمت بننے کی دعوت*` بھی پیش ہے، آپؒ نے اپنے وصال سے تین دن پہلے یعنی 26/ ذیقعدہ مطابق 30/ مارچ منگل کے دن، بعد نماز فجر رائیونڈ (ضلع لاہور) میں فرمایا تھا، یہ آپکی زندگی کی آخری تقریر تھی، اس میں آپ نے فتنۂ عصبیت کے خلاف اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے، انتہائی قیمتی اور آپ کی زندگی کا آخری خطاب ہے گویا جماعت سے منسلک احباب کے لیے اپنے بڑے اور بزرگ رہنما کی آخری وصیت ہے جسے حرز جان بنایا جانا چاہیے۔
آؤڈیو اور پی ڈی ایف
🔻🔽🔻🔽🔻🔽🔻
0 تبصرے