کچھ دردمندانہ باتیں، کچھ مخلصانہ گزارشات



____ گذشتہ سے پیوستہ
مسلم اسکولوں میں خدا سے بغاوت
 (تیسری اور آخری قسط)

 کچھ دردمندانہ باتیں، کچھ مخلصانہ گزارشات 

کچھ ٹیچرز حضرات سے
      کسی صاحبِ فکر ادیب نے کیسی درست بات کہی ہے " تدریس کی مسند پر قوموں کی تقدیر طے کی جاتی ہے، معلمی اور پیمبری میں گہرا ربط ہے" جس طرح پیمبر قوموں میں انقلاب برپا کرتا ہے ایسے ہی معلم بھی قوموں کی کایا ؛ پلٹ سکتا ہے، نبی آخر الزماں ﷺ کا ارشاد ہے " انما بعثتُ معلما : مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے " اور پہلا معلم خود پروردگارِ عالم ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ عربی شاعر احمد شوقی کی طویل نظم "قم للمعلم" کے چند اشعار دیکھئے ؛
قُم لِلمُعَلِّمِ وَفِّهِ التَبجيلا + كادَ المُعَلِّمُ أَن يَكونَ رَسولا
أَعَلِمتَ أَشرَفَ أَو أَجَلَّ مِنَ الَّذي + يَبني وَيُنشِئُ أَنفُساً وَعُقولا
 سُبحانَكَ اللَهُمَّ خَيرَ مُعَلِّمٍ + عَلَّمتَ بِالقَلَمِ القُرونَ الأولى
 أَخرَجتَ هَذا العَقلَ مِن ظُلُماتِهِ + وَهَدَيتَهُ النورَ المُبينَ سَبيلا
     اے مخاطب! معلم کے لیے کھڑے ہوکر اپنا احترام پیش کر کہ ایک معلم ؛ پیمبر کی نیابت کا فرض انجام دیتا ہے۔
     اس سے زیادہ معزز ومؤقر کوئی اور ہے؟ یہ روحوں، دماغوں اور عقل ودل کی تعمیر اور تزیین کرتا ہے۔
      اللہ پاک ہے جو بہترین استاد ہے۔ اللہ نے اگلے لوگوں کو قلم کے ذریعے سکھایا، اسی نے ذہنوں کو اندھیروں سے نکالا اور روشن اور کھلے راستے کی ہدایت کی 
________
      جس طرح استاد وٹیچر کا مقام اِتنا بڑا ہے ویسے ہی اُس کی ذمہ داری بھی اُتنی ہی بڑی اور ویسی ہی نازک ہے۔ اس کا ہر فعل طلبہ کے لئے نمونہ اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے اور متعدی ہوتا ہے، آگے منتقل ہونے والا ہوتا ہے، طلبہ غیر شعوری طور پر اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتے جاتے ہیں، اس لیے استاد کا اچھا فعل وعمل؛ اچھی تربیت و تعلیم کے اعتبار سے صدقۂ جاریہ ہے اور برا فعل وعمل؛ بری تعلیم وتربیت کے اعتبار سے گناہِ جاریہ __ اگر ٹیچر نے ایک اسٹوڈنٹ کو بھی کسی گناہ کے کام میں آگے بڑھا دیا تو اس کے "بینک آف آخرت میں گناہِ جاریہ کا کھاتا" کھل گیا، اسٹوڈنٹ زندگی میں جتنی مرتبہ بھی وہ گناہ کرے گا اس میں محترم ٹیچر و محترمہ استانی صاحبہ شریکِ جرم مان کر گناہ میں اپنا حصہ بھی پاتے رہیں گے۔ اس لئے حوصلہ افزائی اچھے سچے کام ہی میں ہونا چاہیے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے؛ ... تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب ۞ ترجمہ: تعاون نیکی اور تقوی کے کاموں میں کرو، گناہ اور ظلم میں نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (مائدہ: 2)

کچھ اسکول انتظامیہ سے
      اسکول کے اکثر منتظمین پختہ عمر کے سمجھدار و دیندار ہیں، بیشتر نمازوں کا اہتمام کرنے والے بھی ہوں گے، بہتوں کو اللہ نے حج و عمرے کی سعادتوں سے بہرہ ور بھی کیا ہوگا، لیکن آج اخیر عمر میں مسیحائے قوم کی زیر سرپرستی ناجائز عشق و محبت پر مبنی گانے؛ اسکول کی نوعمر بچیوں، نوخیز لڑکیوں سے اسٹیج شو کروائے جارہے ہیں، افسوس صد افسوس!!
     عمر کے اس مرحلے میں جب موت انتظار میں کھڑی ہے، حساب کا وقت قریب ہے، مالک الملک کے حضور حاضری دینے کا فاصلہ تھوڑا سا رہ گیا ہے، ایسے وقت ایسے گناہِ جاریہ کے کام اپنے پیچھے چھوڑ جانا شوبھا نہیں دیتا۔ ایسی غفلت و لاپرواہی زیبا نہیں دیتی۔ اللہ پاک نے تذکیر فرما دی ہے؛
اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون ۞ ترجمہ: قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (الأنبياء 1) ___ سنبھل جائیں قبل اس کے کہ فرشتۂ موت کے ہاتھوں اچک لئے جائیں، پھر اس وقت فرصتِ توبہ نہ رہے۔ ففروا إلى اللہ ؛ چل پڑو اللہ کی طرف

کچھ بچوں کے ماں باپ سے
      اولاد کو جنتی یا جہنمی، کافر یا مسلمان بنانے میں ماں باپ کا اصل کردار ہوتا ہے، ماں باپ کمہار کی طرح ہیں، جس طرح کمہار کا بنایا ہوا برتن اچھا ہو تو بازار میں اس کی اچھی قیمت لگتی ہے ایسے ہی ماں باپ کی فکر وتربیت؛ اولاد کو دنیا و آخرت میں چمکاتی اور قیمتی بناتی ہے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا 
_ ما من مولود الا یولد على الفطرۃ، فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ... ہر اک بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں، نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی ...... (بخاری) 
اللہ پاک نے بھی گھر کے سرپرست ہی کو حکم دیا ، انہیں ہی مکلف بنایا، ارشاد فرمایا :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا قُوا اَنفُسَكُم وَاَھليكُم نَارًا وَّقودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ...... (التحريم :6) اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ 
     سرپرستوں اور ماں باپ کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی عصری و دینی تعلیم وتربیت کی فکر کرے۔ اولاد اللہ رب العزت کا قیمتی انعام ہے، اللہ نے اپنے کلام میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی کی رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق وبہار اور زینت وکمال اسی وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے، دین واخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما ہو، دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے۔ 
     والدین پر اولاد کے جو حقوق ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کا لحاظ رکھ کر، دین فراموشی کے ساتھ نہیں، لہذا ماں باپ اسکولوں کی غیر شرعی سرگرمیوں سے اپنے بچوں کو حتی الامکان بچانے کی کوشش کریں۔

علماء کی ذمہ داری اور اس کی حد 
     علماء کا کام تذکیر و تفہیم اور موجود وسائل کو استعمال کرکے احکام شریعت کا پیش کردینا ہے، چاہے زبان و قلم کے ذریعے، چاہے عمل و اقدام کے ذریعے _من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ ؛ منکرات کو دیکھے تو ہاتھوں سے روک سکتے ہوں تو ہاتھوں سے، یا زبان سے روک سکتے ہوں تو زبان سے روکیں ،،،_ اس ہدایت کو پیشِ نظر رکھ کر جو وسائل حاصل ہوں بروئے کار لاکر حقِ تبلیغ ادا کردینا ہے اور آگے اُن لوگوں کا حساب کتاب؛ اللہ تعالٰی کے حوالے کردینا ہے۔ 
     اللہ پاک نے قرآن کریم میں بیان فرمایا "   
 انما أنت مذکر ۞ لست علیھم بمصیطر ۞ الا من تولی وکفر ۞ فیعذبہ اللہ العذاب الاکبر ۞ ان الینا ایابھم ۞ ثم ان علینا حسابھم ۞
ترجمہ: (اے پیغمبر) تم نصیحت کیے جاؤ۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو۔ ۞ آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لیے مسلط نہیں کیا گیا۔ ۞ ہاں مگر جو کوئی منہ موڑے گا، اور کفر اختیار کرے گا۔ ۞ تو اللہ اس کو بڑا زبردست عذاب دے گا۔ ۞ یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔ ۞ پھر یقینا ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔ ۞ (الغاشية 21-26)

اے اہلِ قدم آؤ یہ میدان سنبھالو
     اہلِ قلم علماء و مفتیان کرام نے منکرات و برائی سے روکنے کی ذمہ داری پوری کردی، اپنا قلم اٹھایا فرضِ تبلیغ ادا کردیا، اب "*اہلِ قدم علماء*" کی باری ہے کہ قدم بڑھائیں، نئی نسل کے دین واخلاق کی حفاظت کیلئے عملی کوشش کریں، ان عصری درسگاہوں کے ارباب حل و عقد کی خدمت میں جائیں، بالمشافہ ملاقات کریں اور افہام و تفہیم، گفت و شنید کے ذریعے اپنا فریضہ انجام دیں۔

 فراق گورکھپوری نے کہا ہے 
     اے اہلِ ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
     میں مملکتِ لوح و قلم بانٹ رہا ہوں

     اہلِ قلم حضرات کی نمائندگی کرتے ہوئے سرکردہ علماء کرام کی خدمت میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ عرض ہے؛
    اے اہلِ قدم آؤ یہ میدان سنبھالو
    ہم معرکۂ فکر وعمل بانٹ رہے ہیں

_____________________ 
     


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے