____ گذشتہ سے پیوستہ
تو پھر مسلمان کہاں جائیں؟!
جن شہروں، علاقوں میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہاں مسلمانوں کو اپنے بچے غیر مسلم اسکولوں میں داخل کرنے پڑتے ہیں جیسے کانوینٹ عیسائی مشنری اسکولز، وہاں مسلم بچوں کا دین، ایمان، عقیدہ واخلاق سب کچھ داؤ پر لگا ہوتا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان، مسلم اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرتے ہیں اس امید پر کہ کم از کم اسکول کا انتظامیہ اپنے طلبہ میں، اپنے اسکول میں غیر دینی، غیر مذہبی، اور غیرشرعی چیزوں کو نافذ نہیں کریں گے، یہ مسلمانوں کے لئے بسا غنیمت ہے۔ لیکن اگر یہی صورتحال مسلم انتظامیہ کے ماتحت مسلم اسکولوں میں بھی پیدا ہونے لگے، یہی اندیشے یہاں بھی جنم لینے لگے تو اب مسلمان اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائیں؟!!
مسلم اسکولوں کا قابل تعریف عمل؛ مگر
سیکولر ملک میں سیکولر تعلیم ہی کے مکلف گرانٹیڈ مسلم اسکولز کا انتظامیہ اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہے کہ اخلاقی تعلیم کی ضرورت کے احساس اور دینی حمیت کے پیش نظر خاموشی سے دین کی بنیادی تعلیم اپنے طلبہ کو فراہم کرنے کے سلسلے میں شہر کے فکرمند علماء و مصلحین کا ہم آواز ہے، ان کے اس کارِ خیر پر ہم خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے دوسرے سبھی اچھے کاموں کے دل سے قدر داں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کے سالانہ گیدرنگ وغیرہ پروگراموں میں غیر شرعی طرز عمل کو ناپسند بھی کرتے ہیں اور ناصحانہ و خیرخواہانہ کہتے ہیں کہ "ایکشن سونگ جیسے مغربی سوانگ اور ویسٹرن کلچر" سے بھی اپنے طلبہ کو بچائیں، جبکہ اس سے دوری بنائے رکھنے میں کوئی مجبوری یا اندیشہ بھی درپیش نہیں ہے۔
یہ نادانی ہے، دانائی نہیں ہے
سال بھر آپ ایمان و اخلاق کا درس اپنے بچوں کو دیں اور سال کے آخر میں بچوں سے ناچ گانا بھی کروائیں، یہ نادانی ہے، عقلمندی نہیں ہے ، یہ تو سال بھر کی دینی فکر اور اپنی کوششوں پر پانی پھیرنا ہے، سال بھر کی اخلاقی ہدایات اور قدروں کو ضائع کرنا ہے، اسلامی کلچر و تہذیب کو سنائیں، شریعت کو اپنانے کی تلقین کریں اور عملا غیر اسلامی تہذیب کو اپنائیں، یہ تو طلبہ کے حق میں منافقانہ رویہ ہوا کہ ہدایت کچھ اور دی جاتی ہے اور عمل میں کچھ اور لایا جا رہا ہے!!
اسی کے ساتھ اخروی اعتبار سے بھی یہ ٹھیک نہیں ہے، ایسا کرنا "نیکی برباد گناہ لازم" کا مصداق بننا ہے۔ سال بھر بہترین کام ہوئے اور سال کے آخر میں ایسے کام کئے جس نے سال بھر کے اچھے عمل پر پانی پھیر دیا، ایمان والے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اول و آخر دونوں ہی اچھا بنائے رکھے۔ بلکہ انجام و آخر کو اچھا بنائے رکھنے کی زیادہ فکر کرے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ، بخاری و مسلم کی حدیث ہے "انما الاعمال بالخواتیم. ترجمہ : اعمال کا دار ومدار تو خاتمے پر ہے۔" اس لئے سالانہ پروگرام وغیرہ ایسے ہوں جو "حسنِ خاتمہ" کہلاسکیں، جنہیں "مسک الختام" کہا جاسکے۔
اسکول انتظامیہ وٹیچرز اہم محاذ پر
(مستقبل قریب میں اِن کا دینی کردار)
ملک کے بدلتے حالات میں جب کہ ہر چیز بدل رہی ہیں، اسکولوں کا نصاب بھی بدلا جارہا ہے، سب سے زیادہ تشویش کی بات ہماری نئی نسل کے ایمان و عقیدے کے خطرے میں پڑ جانے کی ہے۔ اور نئی نسل کی اکثریت اسکولوں کالجوں سے تعلیم پاتی ہے، نئی نسل؛ انہیں ٹیچرز سے ہو کرکے گزرے گی، انہیں سے تعلیم پا کر آگے بڑھے گی، ایسے میں مسلم اسکولز، انتظامیہ اور ٹیچرز کا کردار کسی مصلح، کسی عالم دین سے کم نہیں ہوگا، عصری تعلیم گاہیں؛ مدارس و مکاتب سے بڑھ کر کردار ادا کرنے والے ہو سکتے ہیں، لیکن اگر یہی اسکولیں ، یہی ٹیچرز غلط راہ پر چل پڑے ، انہیں کا دین، ایمان اور اخلاق وکردار درست نہ ہو تو پھر نئی نسل کا اللہ حافظ!
اس اعتبار سے ضروری ہے کہ اسکول انتظامیہ اور ٹیچرز اسلامی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کریں، اس کو دل سے اپنائیں اور اس پر قائم رہنے میں سنجیدہ ہوں۔ واللہ! آپ کی ذمہ داری بہت بڑی ہونے والی ہے اور اُس میں کوتاہی پر اُسی اعتبار سے اللہ پاک کے یہاں جواب دینا ہوگا۔
_____________________
تیسری قسط کے ذیلی عناوین
____ کچھ دردمندانہ باتیں
1) ٹیچرز حضرات سے
2) اسکول انتظامیہ سے
3) بچوں کے مانباپ سے
٭ علماء کی ذمہ داری اور اس کی حد
٭ اے اہلِ قدم آؤ یہ میدان سنبھالو!
_____________________
0 تبصرے