(اسکول گیدرنگ کے پس منظر میں)
✍ نعیم الرحمن ندوی (پہلی قسط)
صبح کی خوشگوار ہواؤں، روشن فضاؤں میں مدرسے کیلئے روانہ ہوا تو مشرق سے تازہ ابھرتے ہوئے سورج پر نظر پڑی، گویا سونے کی ٹکیا ہو، حالانکہ حجم میں زمین سے ہزاروں گنا بڑا ہے لیکن اس کا فاصلہ اس کے پیدا کرنے والے خدا نے اتنا دور رکھا ہوا ہے کہ اہل زمیں کو فقط ایک روٹی کے بقدر سنہری ٹکیا نظر آتا ہے۔ ذہن میں سوال آیا کہ خالق نے اتنا بڑا نظام کیوں بنایا؟ ____ جواب آیا کہ یہ لیل و نہار کی گردش، رات کا جانا، صبح کا آنا، چاند کا بجھ جانا، سورج کا جل اٹھنا یہ سب فقط ایک ہی عاقل مخلوق؛ انسان کے لیے ہے۔ لیکن کیوں؟!! ___ کلامِ الٰہی نے سرگوشانہ جواب دیا "إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ" یہ نظام؛ ایک عظیم مقصد، ایک بڑے امتحان کیلئے ہے کہ حضرتِ انسان؛ زمین پر خدا کا نائب بن کر اس کے حکموں کو اپنے اوپر اور تمام مخلوق پر نافذ کرے تبھی وہ مقصدِ حیات میں کامیاب اور خدا کے امتحان میں بامراد ہوگا ورنہ ناکام ونامراد __ جو خدا کے تابعدار ہیں وہ مومن ووفادار جو نافرمان ہیں وہ کافر وباغی
انہی سوچوں کے درمیان اچانک اسکول جاتی ہوئی صاف ستھرے یونیفارم میں ننھی ننھی بچیاں اور برقع پوش مسلم لڑکیوں پر ایک اچٹتی نگاہ پڑی۔ ___ خیال گزرا کہ ان کا حجاب و پردے میں ہونا بتاتا ہے کہ یہ خدا کے بتائے ہوئے نظامِ عالم کے اصل مقصد کو پورا کر رہی ہیں، یہ امتحانِ زندگی میں پورا اتر رہی ہیں، یہ مومنہ ہیں، مسلمہ ہیں، اپنے پیدا کرنے پروردگار کی وفادار ہیں۔ انہوں نے خالقِ کائنات کے حکم _(وَلْیضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَیٰ جُیوبِهِنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَهُنَّ : اور اپنے ڈوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں)_ کو اپنے جسم وجان پر نافذ کر رکھا ہے۔ ان کے ماں باپ بھی رب کے تابعدار وفرمانبردار ہیں جنہوں نے اپنے گھروں سے تعلیم کیلئے ان بچیوں کو حجاب اور پردے میں بھیجا۔ پروردگار انہیں شاد وآباد رکھے۔
لیکن دوسرے ہی لمحے اس خیال نے دل چکناچور کردیا کہ افسوس صد افسوس!! __ یہ بچیاں، یہ باحجاب و باپردہ اللہ کی بندیاں جن تعلیم گاہوں میں جارہی ہیں وہاں خدا ہی کے نام لیوا، ایمان و اسلام کے دعویدار ایسے افراد بھی ہیں جنہیں ان کا باپردہ ہونا، ان کا مسلمہ و مومنہ ہونا اچھا نہیں لگتا، وہ انہیں اپنی ہی طرح اپنے پروردگار کا نافرمان بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں کی، ان بچیوں اور نوعمر لڑکیوں کی ویڈیوز یاد آئیں جس میں انہیں برسرعام اسٹیج پر ناچتے، تھرکتے دکھایا گیا، دل مسوس کر رہ گیا، آہ! قوم کی بچیوں کو قوم کے معلم ومسیحا ہی بےحیائی کی تعلیم دے رہے ہیں، انہیں گانے کی دُھنوں پر تِھرکنا، کمر لہرانا جیسی شہوت انگیز حرکتیں سکھا رہے ہیں اور نوجوان طلبہ، اساتذہ وناظرین کے جنسی جذبات کو ابھار رہے ہیں۔ ___ علماء ومفتیان کرام کی اصلاحی تحریریں ذہن میں گردش کرنے لگیں، نائبینِ انبیاء نے ان لوگوں کو ایسے کاموں سے روکا تھا جو خدا کو ناراض کرنے والے ہیں لیکن انہوں نے ان باتوں کو بھی نظر انداز کردیا اور ان باحجاب نوعمر ونوخیز مسلم بچیوں اور ننھی ننھی معصوم کلیوں کو اپنے خالق کی بغاوت پر کھڑا کیا، انوول گیدرنگ میں، ایکشن سونگ کے نام پر، ناچنے گانے کی محفلیں سجائی، اور میوزک کی تال پر نچواکر، ڈانس کرواکے دم لیا، اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دھڑلے سے نشر بھی کی گئیں۔
چوٹ پڑی ہے دل پر تو آہ لبوں تک آئی ہے
یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشے کا دستور نہیں
مفتی عامر عثمانی صاحب نے کتنی واضح باتیں، اُن کے اِس عمل کے گناہ ہونے کے بارے میں بتائی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا __"ناچنا گانا کوئی چھوٹا موٹا گناہ نہیں ہے کہ اس سے صرف نظر کیا جائے، بلکہ یہ ایک سنگین اور کبیرہ گناہ ہے جس کے مضر اثرات بہت دور تک پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا اسے قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔" اور پھر اس پر قرآن و حدیث میں جو سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان کو بالتفصیل بیان کیا۔
_____________________
گیدرنگ پروگراموں کے ذریعے اسکول والے بےحیائی کے ساتھ اور کیا کررہے ہیں اس کا شاید انہیں بھی اندازہ نہ ہو، ہم مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
1) فحاشی پھیلائی جارہی ہے
نوعمر ونوخیز لڑکیوں اور بچیوں کے اس طرح کے مناظر اور ایک ایکشن واداکاری سے کیا ہوس بیدار نہیں ہوتی؟ زناکاری کے خیالات پیدا نہیں ہوتے؟ شہوت کی آگ نہیں بھڑکتی؟ کیا اس طرح سے زنا کاری و فحاشی کو سماج میں رواج نہیں ہوگا؟ بلکہ حقیقتاً علامہ اقبال کی تعبیر میں "اعلی خیالات اور پاکیزہ روحانی جذبات کو سُلایا جارہا ہے اور جنسی وسفلی جسمانی جذبات کو بیدار کیا جارہا ہے۔"
چشمِ آدم سے چھُپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں رُوح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
فحش پھیلانے کا بھیانک انجام
کوئی شک نہیں کہ ان پروگراموں سے قوم کے بچوں میں بےحیائی و فحاشی کو بڑھاوا ملے گا، حیاء و حجاب کی تہذیب کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ایسے لوگ سماجی مجرم ہیں جن کی سزا بھی بڑی بھیانک ہے، ظاہر ہے جو لوگ کسی کی عاقبت خراب کریں تو ان کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔
فحش پھیلانا، خاص طور پر مسلم معاشرے میں اس کی ترویج و اشاعت؛ اللہ پاک کے یہاں اتنا بڑا جرم ہے کہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی موت سے پہلے ہی خدائی گرفت میں دھر لیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے؛
إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة والله يعلم وأنتم لا تعلمون ۞ ترجمہ: جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ النور: 19)
آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، ایکشن سونگز، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔
2) دین و ایمان خطرے میں
ان پروگراموں کے ذریعے نہ صرف بےحیائی پھیل رہی ہے بلکہ نئی نسل کا دین، ایمان بھی خطرے میں ہے، بےحیائی؛ ایمان کے چھن جانے، سلب ہوجانے کا سبب ہے، ارتداد کی طرف لے جانے والی ہے، ملک بھر میں مرتد ہوجانے، غیرمسلموں کے ساتھ بھاگ جانے والی مسلم بچیوں کو اس عمل پر اکسانے والی چیز یہی بےحیائی ہے، مسلمان لڑکیاں سیکس وشہوت کی طرف بڑھتی ہیں، غیر مسلم نوجوان عشق و محبت کے جال میں پھانستے ہیں، فحش پوسٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور انجام کار دین، ایمان سب کچھ چھوڑ کر غیروں کے ساتھ فرار ہوجاتی ہیں۔
اللہ کے نبی ﷺ نے صاف ارشاد فرما دیا ہے : بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم حدیث:66) یعنی حیاء اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے، جب جاتے ہیں تو دونوں ساتھ جاتے ہیں۔ اسکول گیدرنگ میں فلموں کے گانوں اور ایکشن شوز کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان میں سوراخ کیا جارہا ہے اور گویا دانستہ ونادانستہ دین، ایمان چھیننے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
3) نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے
کہا جاتا ہے "مرد پڑھا، فرد پڑھا؛ عورت پڑھی خاندان پڑھا" اس پس منظر میں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑتا ہے اور جب بچیوں ، عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ اسکول گیدرنگ نسلوں کو تباہ کرنے کا کام کررہی ہے۔
4) عذابِ الہی کو دعوت دی جارہی ہے
ہمارے شہر کا امتیاز ہے کہ اس کی اسلامی شناخت باقی ہے، اس کا دینی ضمیر زندہ ہے، اجتماعی برائیوں اور منکرات پر اجتماعی احساس جاگتا ہے اور دین اور اہلِ دین کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اصلاحی کوششیں اور رجوع الی اللہ کی تلقین کی جاتی ہے اور اہلِ شہر اس پر عمل پیرا ہوتے رہے ہیں جس کے سبب ہمیشہ اللہ پاک کا فضل و کرم رہا شہر کبھی بہت سخت اجتماعی حالات و پریشانیوں کا شکار نہیں رہا، کورونا جیسی خطرناک وباء جس نے شہروں، صوبوں نہیں؛ ملکوں اور بڑی بڑی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن ان حالات میں بھی چھوٹا سا شہر؛ مالیگاؤں محفوظ و مامون رہا اور دنیا بھر میں کورونا پروف ہونے کی نیک نامی حاصل کی۔ ___ لیکن جب اجتماعی گناہ ہوتے ہیں اور کبیرہ گناہ خدا کی بےخوفی سے کئے جاتے ہیں، تنبیہ کرنے پر بھی باز نہیں آتے تو مکافاتِ عمل کا قانونِ الہی حرکت میں آتا ہے، یوں قدرت کی ایک سرزنش دماغ درست کردیتی ہے، سرکشی کا نشہ اتار دیتی ہے۔
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف
لیکن عذابِ الہی کی وہ لپیٹ، وہ چپیٹ ایسی نہیں ہوتی کہ برداشت کرلی جائے، اس لئے اس سے بچنا اور دور رہنا ہی عقلمندی ہے۔ اسکول گیدرنگ کے اجتماعی ناچ گانے؛ گاجے باجے، ساز و میوزنگ کو عام کر رہے ہیں، نوجوانوں کو شہوت پرستی، زناکاری میں مبتلا کرکے عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں، نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسانا، صورتیں بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہوگا۔ تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ کیسے ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : جب گانے والیاں اور باجے گاجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمذی)
کیا یہ چھوٹا سا شہر مالیگاؤں؛ ترکی، شام جیسے زلزلے برداشت کر سکتا ہے، یا اور کوئی عذاب جھیل سکتا ہے؟!!
گیدرنگ پروگراموں کا بھیانک انجام
1) اگر ان بچیوں کی یوں ہی تربیت کی گئی تو مستقبل میں فلمی اداکارہ و ایکٹر بن کر لاکھوں کے ایمان خراب کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔
2) اگر اسکولوں کے اساتذہ و سرپرستوں کی نگرانی میں یہ بچیاں یوں ہی پروان چڑھتی رہیں تو یہی بچیاں نہ صرف والدین بلکہ پوری قوم و ملت کی رسوائی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔
3) اور خدا نہ کرے خدا نہ کرے، یہی بچیاں اگر یوں ہی اساتذہ و عوام کی حوصلہ افزائی سے برسرِ عام بے حیائی کا مظاہرہ کرتی رہیں تو ممکن ہے مستقبل میں اسلام بیزاری کا کھلے عام مظاہرہ کرے اور مالیگاؤں کی یہی بچیاں وہ کام بھی کر گذرے جو محبت کے نام پر ارتداد کو گلے لگانے والی لڑکیاں کررہی ہیں۔
_____________________
0 تبصرے