سجدۂ بندگی اور نقد فائدے
✍ نعیم الرحمن ندوی
سجدہ ؛ بندگی کا سب سے اعلی مظہر ہے اور اللہ رب العزت کے قرب کا بہترین وسیلہ بھی، باری تعالی نے اعلان فرمایا "واسجد واقترب : اے پیغمبر! اللہ کے حضور سجدہ کیجئے اور رب سے قریب ہوجائیے۔" عارفین باللہ سجدۂ بندگی سے پروردگار کی لذتِ قرب کو محسوس بھی کرتے تھے، حضرت فضلِ رحمن گنج مراد آبادیؒ کہا کرتے تھے "جب ہم سجدہ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ میاں نے پیار کر لیا ہے"
سر کس کے آگے؟
بندہ؛ کس ہستی کو سجدہ کرتا ہے؟ ____
ساتوں آسمانوں اور زمین کے خالق، عرش وکرسی کے مالک، ربِّ ذوالجلال والإكرام کی بارگاہ میں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے، اُس زمین پر جو اجرامِ سماوی میں ایک نقطے کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی، اُس پر اپنے وجود کے سب سے اعلی وبرتر حصے یعنی اپنے سر کو، اپنے ماتھے کو رکھ دیتا ہے، اور اِس ہیئت میں اُس عظیم پروردگار کے سب سے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ (أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ ساجد .... الحدیث)
اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ایسا کرکے اپنے پروردگار پر کوئی احسان نہیں رکھ رہا ہوں بلکہ اپنے اُس علیم وقدیر خالق کے حضور جبینِ نیاز خم کر رہا ہوں، اُس کے سامنے خاکی وجود کو خاک سے مَس کر رہا ہوں جس نے میرے وجود کو خلق کیا، اس کے لئے دیکھنے والی آنکھیں، سننے والے کان بنائے، آنکھوں کی چربی میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی تو کانوں کو سماعت کی اہلیت بخشی۔ یہ احساسات الفاظِ نبوی میں یوں ڈھلتے ہیں؛
سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته __ فتبارک اللہ احسن الخالقین : میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور اس کے کان اور آنکھیں بنائیں“ پس بابرکت ہے اللہ بہترین خالق۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ: «سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ» (مشکوٰۃ : 1035)
سجدے کی قسمیں
سجدے کی کئی قسمیں ہیں، نمازوں کے سجدوں کے علاوہ انبیاء نے جو خاص کیفیات کے سبب سجدے کئے ہیں ان میں سجدۂ توبہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اور سجدۂ شکر محمد عربی ﷺ نے کیا ہے، اس طرح دونوں انبیائے کرام علیہم السلام نے سجدۂ توبہ و سجدۂ شکر ادا کرکے اپنی امت کے گنہگاروں اور نعمتِ مغفرت کے قدر دانوں کے لیے ایک بڑی سنت چھوڑی۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک نظر دیکھتے ہیں۔
نبی ﷺ کا سجدۂ شکر
مشکوٰۃ المصابیح کے باب سجود القرآن کی حدیث ہے ابن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے رات خواب میں دیکھا کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدہ کیا تو درخت نے بھی میرے سجدہ کرنے کی وجہ سے سجدہ کیا، میں نے اسے یہ پڑھتے ہوئے سنا:
اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا
وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا
وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا
وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ.
اے اللہ میرے لیے اس کا ثواب اپنے ہاں لکھ لے، اس کے ذریعے میرے گناہ معاف فرما، اسے اپنے ہاں ذخیرہ بنا، اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داؤد ؑسے قبول فرمایا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ نے یہ آیتِ سجدہ تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا، میں نے آپ کو وہی دعا کرتے ہوئے سنا جو اس آدمی نے آپ ﷺ کو درخت کے متعلق بتائی تھی۔ (حدیث نمبر: 1036)
آگے ایک روایت میں آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ میرا یہ سجدہ؛ شکر کا سجدہ ہے۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِي (صٓ) وَقَالَ: سَجَدَهَا دَاوُدُ تَوْبَةً وَنَسْجُدُهَا شُكْرًا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ ___ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سورۂ صٓ کی تلاوت پر سجدہ کیا اور فرمایا: ’’داؤد ؑ نے توبہ کے لیے سجدہ کیا جبکہ ہم بطورِ شکر سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ رواہ النسائی
داؤد علیہ السلام کا سجدۂ توبہ
حضرت داؤد علیہ السلام سے کسی خطا کا صدور ہوا، باری تعالٰی کے احساس دلانے پر رجوع وانابت کی کیفیت ہوئی، آپؑ نے توبہ واستغفار کیا اور پروردگار کے حضور سجدے میں گر پڑے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے؛
وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاستغفرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ۞
ترجمہ: اور داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے دراصل ان کی آزمائش کی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی، جھک کر سجدے میں گرگئے اور اللہ سے لو لگائی۔ (ص 24)
"وخرَّ راکعا و اناب" میں رکوع اور سجدہ دونوں مراد ہیں۔ رکوع کا ذکر تصریح کے ساتھ موجود ہی ہے اور لفظ "خرَّ" سجدہ پر دال ہے، اسی لئے اس آیت پر سجدۂ تلاوت بھی کیا جاتا ہے۔
یہ استغفار وتوبہ کا سجدہ گویا سنتِ داؤدی ہے۔ گناہ ہونے اور اس کا احساس جاگ جانے پر رب سے ڈرنے والا، رب کے حضور جھک جائے، سجدے میں گر پڑے۔ اللہ پاک سے توبہ ورجوع ہونے کیلئے یہ مثال بہترین عملی نمونہ ہے۔ جس پر خود نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے عمل فرمایا اور اسے اپنے لئے سجدۂ شکر قرار دیا۔ (سَجَدَهَا دَاوُدُ تَوْبَةً وَنَسْجُدُهَا شُكْرًا.)
_____________________
سجدے کے نقد فوائد
طویل سجدے سے متعلق چند دن پہلے ایک مفید تحریر گزری جس میں سجدے کا جسمانی فائدہ مذکور تھا جس سے احساس ہوا کہ اللہ پاک آخرت کے عظیم ثواب، روحانی فوائد؛ چین وسکون اور اپنے قربِ خاص عطا کرنے کے ساتھ ساتھ نقد جسمانی فائدے بھی عطا کرتے ہیں۔ مضمون میں ایک مسلمان ڈاکٹر کے حوالے سے لمبے سجدے کا فائدہ ذکر کیا گیا تھا کہ یہ دماغی بیماریوں کو دور کرنے کا مفید ومؤثر طریقہ ہے اور دلیل بھی قابل اطمینان دی کہ ہمارا دل کششِ ثقل (Gravity) کے خلاف عام حالت میں خون؛ دماغ تک اُتنے ٹھیک طریقے سے پمپ نہیں کرتا جتنا ہماری سجدے کی حالت میں کرتا ہے، دماغ کو خون اچھی طرح نہ پہنچے تو وہ کمزور ہوجاتا ہے اور بڑھاپے میں بالآخر جواب دے جاتا ہے۔ طویل سجدے سے نزلہ زکام، بالوں کا جھڑنا، آنکھوں، کانوں کی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں اور چہرہ بھی کیل مہاسوں پھنسیوں وغیرہ سے محفوظ اور تازگی سے بھرپور رہتا ہے، چہرے کی رونق بڑھ جاتی ہے۔
کیسے کریم ہیں پروردگار کہ اپنے بندوں کو ہر طرح سے نوازتے ہیں۔ یہ سارے فوائد نمازی کو بلا نیت وارادہ مل جاتے ہیں، ورنہ یہ اخلاص کے منافی ہے کہ بندہ اپنے خالق کی عبادت رضاء الٰہی کے علاوہ کسی اور مقصد سے کرے۔
نبی ﷺ کا طویل سجدہ اور آپؐ کی صحت
نبی کریم ﷺ کے راتوں کی نفل نمازوں کے رکوع وسجود کم وبیش اتنے ہی طویل ہوتے جتنے قیام میں قرأت طویل ہوتی، آپ ﷺ جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو طویل سجدہ فرماتے اور ان میں تسبیحات اور دعائیں خوب پڑھتے، امت کو اسی کی ترغیب بھی دی، ارشاد ہے؛ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ ساجد فَأَكْثرُوا الدُّعَاء __ ’’بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، پس (سجدے کی حالت میں) زیادہ دعائیں کرو۔‘‘ (رَوَاهُ مُسلم)
یہی لمبا سجدہ تھا جس سے آپؐ "واسجد واقترب : اے پیغمبر! اللہ کے حضور سجدہ کیجئے اور رب سے قریب ہوجائیے۔" کے حکمِ باری کو پورا فرماتے اور اپنے رب کا قربِ خاص حاصل کرتے تو دوسری طرف آپ کو بلا نیت وارادہ جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے۔ ہم نبی علیہ السلام کی جسمانی صحت پر نگاہ ڈالیں تو یہ بھی بڑی مثالی نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ کو اخیر عمر تک بینائی و سماعت کا کوئی نقص وعیب لاحق نہیں ہوا، آپ کے دندانِ مبارک بھی اپنی جگہ خوب مضبوط تھے۔ تاعمر آپ نے خوب اچھی صحت مند زندگی گزار کر وصال فرمایا۔
کیا ہم بھی ایسے ہیں؟
سجدہ تواضع وفروتنی کی آخری ہیئت، اظہارِ عجز کی انتہائی شکل ہے۔ کسی کے آگے اپنے آپ کو جھکانے کا اس سے نیچے کوئی درجہ نہیں، انبیاء کرامؑ کا سجدہ کرنا اور پروردگار کی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم کرنا، ان کی کمالِ عبدیت کی دلیل اور ان کے عبدِ کامل ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمیں بھی ایسے احساس جاگتے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنے کریم رب سے ایسا تواضعانہ وتسلیمانہ تعلق رکھتے ہیں؟ رب کی طرف سے عمل کا تقاضہ ہونے پر کیا ہم بھی اپنے عمل سے "اسلمتُ لرب العالمين" کا جواب دیتے ہیں؟
0 تبصرے