دو معصوم مسلم بچوں کا بچپن کوڑے دان پر

نعیم الرحمن ملی ندوی 

           فجر کی نماز مسجد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پڑھ کر گھر واپسی کے لیے نکلا تو تنبولی ہال کے سامنے کوڑے دان پر دو چھوٹے بچے کچھ چنتے نظر آئے۔ وہ پلاسٹک، ہڈیاں اور لوہے کے ٹکڑے جمع کر کے اپنے پشت پر لٹکے تھیلوں میں رکھ رہے تھے۔

کتوں کے درمیان بچوں کی بے بسی 
        آس پاس کتے ان پر بھونکتے ہوئے انہیں گھیرے ہوئے تھے، مگر وہ کتوں کے بھونکنے کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کام میں مگن تھے۔ کتوں کو بھگایا اور بچوں کو غور سے دیکھا۔ پہلی نظر میں لگا کہ شاید غیر مسلم ہیں، لیکن ان کے لباس اور آپس میں اردو میں ہونے والی بات چیت سے یقین ہوا کہ وہ مسلمان ہیں۔ ایک چھوٹی لڑکی، عمر نو سے دس سال، اور ایک چھوٹا لڑکا، عمر سات سے آٹھ سال، دونوں کے کپڑے گندگی سے آلودہ، پیٹھ پر نجاستوں سے بھرے پلاسٹک کے تھیلے لٹکائے ہوئے تھے۔ 
 
ان معصوموں کا تعارف
قریب جا کر پوچھا، "بیٹا، تم لوگ کون ہو؟"  
لڑکے نے جواب دیا، "ہم بہن بھائی ہیں، یہ میری بڑی بہن ہے، میں اس کا چھوٹا بھائی ہوں۔"  
"نام کیا ہے؟"  
"وسیم۔"  
"کہاں رہتے ہو؟"  
"ہیرا پورے میں۔"  
"تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟"  
"حمالی کرتے ہیں۔"  
"تم یہ کام کیوں کرتے ہو؟"  
اب لڑکی بولی، "گھر پر خرچ زیادہ ہے۔"  
"ابو کتنا کماتے ہیں؟"  
"روزانہ چار سو روپے۔"  
"اور تم یہ چن کر کتنا کما لیتے ہو؟"  
"ہزار سے گیارہ سو روپے۔"  
میں نے حیرت سے کہا، "اچھا! گیارہ سو روپے تک؟"  
"ہاں، صبح اذان کے وقت نکلتے ہیں، دوپہر کو کھانے کے وقت گھر جاتے ہیں، پھر دو بجے سے پانچ بجے تک پھر کام کرتے ہیں۔ پانچ بجے تک گیارہ سو روپے ہو جاتے ہیں، پھر بند کر دیتے ہیں۔"  

بھائی کے قتل نے بدل دی زندگی
پوچھا، "کوئی بڑا بھائی کمانے والا نہیں؟"  
لڑکی نے جواب دیا، "ایک بڑا بھائی تھا، نواز بھیا، اس کا مرڈر ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس کا کیس دھولیہ میں چل رہا ہے۔ مہینے میں ایک بار ہمیں دھولیہ بھی جانا پڑتا ہے، اس کے لیے بھی ہزار سے پندرہ سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب بھیا تھا، ہم یہ کام نہیں کرتے تھے۔ بھیا کماتا تھا، لیکن اب ہمیں یہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم گھر میں سات لوگ ہیں، اور بس ابا ہی کمانے والے ہیں۔"  

ایک عورت جو گزرتے ہوئے رک گئی تھی، بولی، "بیٹا، عزت کی روٹی کماؤ، یہ سب مت کرو۔"  
لڑکی نے جواب دیا، "عزت کا کیا؟ محنت کر رہے ہیں نا! پھر گھر کیسے چلے گا؟"  

*آہ! یہ معصوم بچپن کس ڈگر پر؟*
        نو سے دس سال کی لڑکی اور سات سے آٹھ سال کا لڑکا، گندے کپڑوں میں، پیٹھ پر کچرے کے تھیلے لٹکائے، صبح سے شام تک کوڑے کے ڈھیروں پر پلاسٹک، ہڈیاں اور لوہے کے ٹکڑے چنتے ہیں۔ بھرا ہوا تھیلا، جو دسیوں کلو کا ہوجاتا ہے، اٹھارہ سے بیس روپے فی کلو کے حساب سے کئی بار بھنگار کی دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک محنت کرکے ہزار سے گیارہ سو روپے کما کر گھر لے جاتے ہیں۔
  
ان کی عمر سیکھنے کی ہے
        دل پر گہرا اثر ہوا کہ ان کی عمر کھیلنے کودنے، صاف ستھرے کپڑوں میں اسکول یا مدرسے جانے کی ہے۔ نہا دھو کر، اسکول کا بیگ کندھے پر لٹکائے یا مدرسے کی کتابیں سینے سے لگائے، ناشتا کر کے سیکھنے کی عمر ہے۔ لیکن یہ بچے حالات کے ہاتھوں مجبور، صبح سویرے کچرے کا تھیلا لٹکائے، میلے کچیلے کپڑوں میں گلیوں اور کوڑے دانوں پر پھرتے ہیں۔ 
 
کس نے تباہ کیا ان کا مستقبل؟
        کس چیز نے انہیں اس حال تک پہنچایا؟..... انہی کے بقول، "ایک بڑا بھائی تھا، نواز بھیا، اس کا مرڈر ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے اسے قتل کر دیا۔" _____ بھیا کے ہوتے یہ بچے یہ کام نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ گھر کا خرچ اٹھاتا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ معصوم بچے گھر چلانے کے لیے کوڑے کے ڈھیروں پر آ گئے۔ 
 
نشے نے سب کچھ چھین لیا
        شہر میں بڑھتا ہوا نشے کا رجحان، جو نوجوانوں اور نوعمر بچوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اسی نشے کی لت کی وجہ سے قتل و خون ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گھر معاشی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں، اور بچے سڑکوں پر کوڑا چننے پر مجبور ہیں۔ جب گھر کا کوئی کمانے والا قتل ہو جاتا ہے، تو پورا خاندان معاشی بحران میں ڈوب جاتا ہے، اور بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ یہ وہی ستم رسیدہ بچے ہیں جو اسکول یا مدرسہ جانے کے بجائے کچرے کے تھیلے اٹھائے گندگی کے ڈھیروں پر دن بھر محنت کر کے چند سو روپے گھر لے جاتے ہیں۔  

*ذمہ دار کون؟*  
        قتلِ ناحق کرنے والے تو ہیں اس کے راست ذمہ دار لیکن ___ قوم کے لیڈران اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ، جو شہر میں نشے کی خرید و فروخت کو بزور و طاقت سے روک سکتے ہیں، لیکن اپنے فرض سے کنارہ کشی کر رہے ہیں، وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی اور سماجی اثر رکھنے والے، اصلاح کے کام کرنے والے، سب پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور وہ لوگ جو نشے کی اشیاء بیچنے والوں کو قانونی شکنجے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، وہ بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔  

نبی علیہ السلام کی تعلیم
       قوم کے اثر و رسوخ رکھنے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے:  
*"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ"* 
ترجمہ: "تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اور اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے اسے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔"
  
مالداروں کی ذمہ داری
       اسی طرح قوم کے مالدار اور صاحب حیثیت افراد کو چاہیے کہ ایسے بچوں کی دینی اور عصری تعلیم کے لیے وسائل مہیا کریں، ان کے تعلیمی اخراجات اٹھائیں، اور ان کی معاشی مشکلات دور کرنے کے اسباب فراہم کریں۔ 

اللہ پاک ہمیں قوم و ملت کا درد و فکر عطا فرمائے اور مؤثر اصلاحی اقدامات کی توفیق بخشے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے