تین معصوم سگریٹ نوش اور ہماری ذمہ داری


ابو نعمان ندوی

چہل قدمی کے دوران ایک منظر
        کل عشائیہ کے بعد چہل قدمی کے لیے نکلا۔ زیر تعمیر علی اکبر ہاسپٹل کے سامنے، نجم الدین کھجور والے (سابق میئر) کے مکان کے پیچھے (گلشن آباد میں) نئے پلاٹ کی کھلی زمین ہے۔ وہاں تھوڑا اندھیرا تھا اور کچھ لائٹیں جل رہی تھیں۔ جب وہاں سے گزرا تو عجیب منظر نظر آیا۔ جگہ جگہ کم سن لڑکوں، نوجوانوں، ادھیڑ عمر اور کچھ بہت ہی عمر رسیدہ لوگوں کے الگ الگ حلقے دکھائی دیے۔ وہ سب اپنے اردگرد سے بے نیاز ہو کر اپنی نشے اور جوے کی دنیا میں بالکل مگن تھے۔

تین معصوم سگریٹ نوش

         اسی دوران میری نظر تین بالکل کم سن لڑکوں پر پڑی، جن کی عمر مشکل سے بارہ سے پندرہ سال کے درمیان ہوگی۔ وہ بیڑی اور سگریٹ سلگائے لمبے لمبے کش کھینچ رہے تھے اور ہاتھوں میں اینڈرائڈ موبائل تھامے ایک جگہ آکر بیٹھ گئے۔ میں نے کنکھیوں سے انہیں دیکھا اور سوچنے لگا کہ انہیں کس انداز میں سمجھایا جائے؟


گفتگو کی ابتدا
         کچھ دیر بعد میں ان کے پاس گیا۔ سلام کیا اور خیریت دریافت کرنے کے بعد بےتکلفی سے گفتگو شروع کی۔

کچی عمر اور کچی اینٹ
         میں نے کہا: "بیٹا! تم نے اینٹوں کے پکنے کے عمل کو دیکھا ہے؟ جب اینٹ کچی ہوتی ہے تو اس کا رنگ کالا سا ہوتا ہے، پھر جب بھٹی میں پک جاتی ہے تو لال ہو جاتی ہے۔ لال اینٹ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ مضبوط ہو گئی ہے، اور اگر کچی اینٹ کو دیوار میں رکھ دیا جائے تو وہ کمزور عمارت زیادہ دن نہیں ٹک پاتی، چند بارشوں میں ڈھسل جاتی ہے، گر پڑتی ہے۔

اسی طرح تمہاری یہ عمر بھی کچی اینٹ کی طرح ہے۔ اگر تم اس کچی عمر میں سگریٹ نوشی اور دوسرے نشوں میں پڑ گئے تو تمہارا جسم کمزور ہو جائے گا۔ کل کو تمہیں سخت پچھتانا پڑے گا۔"

مستقبل کی تصویر
یہ کہہ کر میں نے قریب بیٹھے چند بوڑھوں کی طرف اشارہ کیا جو کھانس رہے تھے اور انتہائی لاغر حالت میں نشہ کر رہے تھے۔ میں نے کہا: "بیٹا! ذرا دیکھو ان کو، یہی تمہارا مستقبل ہوگا اگر تم آج یہ سب کرتے رہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا بڑھاپا بھی ایسا ہی گزرے؟"

یہ سن کر تینوں کے چہروں پر گہری سنجیدگی چھا گئی اور انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔

نیک لوگوں کا نمونہ
میں نے مزید کہا: "کبھی تم نے کسی امام مسجد یا کسی نیک عالم دین کو، کسی ڈاکٹر، ٹیچر کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا ہے؟ کیوں نہیں دیکھا؟ کیونکہ یہ بری اور نقصان دہ چیز ہے۔ اگر تم بھی ویسا بننا چاہتے ہو تو پڑھائی کی طرف توجہ دو، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، اور ہر قسم کے نشے سے اپنے آپ کو بچاؤ۔"

شادی اور ذمے داری
پھر میں نے مسکرا کر پوچھا: "بیٹا! بڑے ہو کر شادی کرنا چاہتے ہو؟"
یہ سن کر تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

میں نے کہا: "جب تم شادی کرو گے تو دو چار سالوں میں کمزور ہو جاؤ گے، کما نہیں سکوگے، مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاؤگے، تو کیا تمہاری بیوی خوش رہے گی؟ میں نے اپنی مسجد کے دروازے پر کئی عورتوں کو بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ جب ان سے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے شوہر نشے کے عادی ہوگئے، کسی کا آپریشن ہوا، کوئی شراب نوشی سے گردے خراب کر بیٹھا، کوئی بیماریوں میں گھِر کر بالکل نکما ہو گیا۔ اب وہ کچھ کما نہیں پاتے اور ہم مجبور ہو کر بھیک مانگ رہے ہیں۔

بیٹا! کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیویاں بھی کل دوسروں کے دروازوں پر جا کر بھیک مانگنے پر مجبور ہوں؟ کیا تم یہ پسند کرو گے؟"

یہ سن کر ان کے چہروں پر ایک بار پھر سنجیدگی چھا گئی اور انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔

عزم اور فیصلہ
میں نے کہا: "اگر آج ہی تم پکا ارادہ کر لو کہ سگریٹ، بیڑی، موبائل کے غلط استعمال اور ہر قسم کے نشے سے بچو گے، تو اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہو۔ جماعت میں وقت لگاؤ، مسجدوں سے جڑو، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو اور برے لوگوں سے دور رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو کامیاب رہو گے۔ ورنہ کل جب تمہاری زندگی برباد ہو جائے گی تو تمہیں وہ لمحہ یاد آئے گا جب ایک مسجد کے امام صاحب تمہیں سمجھا رہے تھے، اور تم سوچو گے کہ کاش! ہم نے ان کی بات مان لی ہوتی۔ مگر اس وقت پچھتانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس لیے ابھی سے فیصلہ کرو، اور اپنے آپ کو بدلنے کا عزم کرو۔"

یہ باتیں سن کر تینوں لڑکوں نے گرمجوشی سے گردن ہلائی اور ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کیا۔ پھر میں اپنے گھر واپس آ گیا۔


اگر ہم انفرادی سطح پر اس طرح کی کوششیں کریں، محلے والے بھی فکر مند ہوں اور ہر کوئی اپنی ذمہ داری سمجھے، تو ہم بچوں کو راہِ راست پر لا سکتے ہیں، نوجوانوں کی جوانی کو بچا سکتے ہیں اور بوڑھوں کے بڑھاپے کو مزید خستہ و خراب ہونے سے روک سکتے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے