نعیم الرحمن ندوی
بروز سنیچر ۲۹/ جون ۲۰۲۴ء کو دھولیہ شہر میں ایک سیمینار "بیئنگ پروگریسیو فاؤنڈیشن" کی جانب سے "معاشی ترقی کے ظاہری اسباب" عنوان پر ضلع دھولیہ و اطراف کے تاجروں اور سرمایہ داروں کے لیے منعقد کیا گیا۔ اس میں تجارتی شعبے کے ماہرین اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کے ذریعے رہنمائی کی گئی۔ اسی روز بعد نماز مغرب مسجد عائشہ، مدرسہ سراج العلوم میں علمائے کرام کے لیے ایک خصوصی مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں راقم الحروف (نعیم الرحمن ندوی) بھی شریک ہوا۔
درج ذیل دو اہم عناوین پر قیمتی خطابات ہوئے، افادیت کے پیش نظر اہم نکات پیش ہیں۔
1) قومی تعلیمی پالیسی کے مدنظر ہمارے کرنے والے کام (حضرت مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی، نائب ناظم المعہد العالی الاسلامی، حیدر آباد)
2) موجودہ بدلتے ہوئے دور میں ضروری اقدامات (حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حساب دامت برکاتہم، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)
_________________
فرزندِ فقیہ العصر کا خطاب :
فرزندِ فقیہ العصر حضرت مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی صاحب نے اپنے خطاب کے درمیان کہا کہ
٭ ہم علماء پیغمبرِ اسلام کے پیغام بر ہیں، صفہ کے فارغ صحابہؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا رسول قرار دیا اور عملا بتادیا کہ وارثین انبیاء کا اصل لقب حافظ، عالم، مفتی، قاضی نہیں ہے بلکہ "رسولُ رسولِ اللہ یعنی پیغمبرِ خدا کے پیغام بر" ہے۔ اور یہی دربارِ رسالت سے عطا کردہ لقب دائرۂ کار اور ذمہ داریوں کو بھی طے کرتا ہے۔ بطور دلیل فقرہ حدیث ذکر فرمایا : الحمد لله الذي وفَّق رسولَ رسولِ الله ﷺ لما يُرضي رسولَ الله ﷺ - (مسند أحمد)
٭ کس قسم کے فارغين و دعاۃ مدارس سے تیار کرنا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ہمیں ربعی ابن عامرؓ کی طرح دعاۃ تیار کرنا ہے جن میں ابتعاث کا قوی احساس ہو، جو بڑے بڑے مجمعوں اور شخصیتوں کے سامنے بغیر مرعوبیت کے، یقین سے کہیں "اللہُ ابتعثَنا ؛ اللہ نے ہمیں اس کام کے لئے بھیجا ہے۔ لِنُخرج مَن شاء مِن عبادةِ العباد إلى عبادةِ الله، تاکہ ہم انسانوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں لائیں۔ ومِن ضيق الدنيا إلى سَعَتها، ومِن جَوْرِ الأديان إلى عدلِ الإسلام، دنیا کی تنگنائیوں سے وسعت اور دھرم کے ظلم و ستم سے نکال کر اسلام کے عدل و مساوات کی طرف لائیں۔
ان باتوں کے پس منظر میں موجودہ ملکی و بین الاقوامی اسلاموفوبیائی صورتحال کا تفصیلی ذکر کیا۔
___ ٭ انبیاء کرام علیہم السلام کی جدوجہد دو شعبوں میں مرکوز تھی۔ 1) عقیدے کی اصلاح 2) سماجی برائیوں کی اصلاح ___ ہمیں بھی ان کو ملحوظ رکھ کر کام کرنا ہے۔
٭ آخر میں کہا کہ تین کام ہمیں ترجیحی طور پر کرنے ہونگے، یہ وقت کی اہم ترین دینی ضرورت ہے۔
1) مکتب کا نظام منظم اور وسیع کرنا، بچوں کے ساتھ بچیوں کی، مردوں کے ساتھ عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ کرنا ہے، اس لیے کہ مرد کے ذریعے دین گھر کی دہلیز تک اور عورتوں کے ذریعے نسلوں تک پہنچتا ہے۔ 2) دوسری چیز باشعور و باعمل مسلمان بنانا ہے، اس کے لیے موجودہ نصاب توجہ طلب ہے، نواقضِ وضو کے ساتھ ساتھ نواقضِ ایمان و اسلام کا پڑھایا جانا بھی ضروری ہے۔
3) اور تیسری چیز اعلی تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔
_____________________
فقیہ العصر کا حکیمانہ خطاب :
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے "موجودہ بدلتے ہوئے دور میں ضروری اقدامات" کے تحت گفتگو فرمائی، اہم نکات درج ذیل ہیں۔
٭ کورٹ کو شریعت میں مداخلت کا موقع خود مسلمانوں کے کورٹ جانے سے ملتا ہے۔ ٭ آپ ائمہ مساجد؛ مسجدوں کو دار الصلح بنائیں، آج کی زبان میں کونسل سینٹر بنائیں، صلح سے دلوں کے فاصلے ختم ہوتے ہیں اور فیصلے و احکامات سے فقط مسئلے کا ایک حل سامنے آتا ہے، دلوں کے فاصلے باقی رہتے ہیں۔ آپ دار القضاء سے پہلے دار الصلح میں باہمی صلح و صفائی سے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ (اس پر قدرے طویل مدلل و مفصل گفتگو کی) ٭ آپ امام ہیں آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ حدیث میں ہے "الإمام ضامن" امام ضامن ہے لیکن فقط نماز کا ضامن نہیں ہے بلکہ امام مقتدیوں کی پوری دینی زندگی کا ضامن ہے۔ ٭ دو چیزیں ہیں 1) ایک ہے دین کی دعوت _ یہ سارے مسلمان کرسکتے ہیں اسی لیے (بقدر استطاعت و اہلیت) یہ فرضِ عین ہے۔ (کنتم خیر امۃ أخرجت للناس) اور 2) دوسری چیز ہے دین کا دفاع یعنی اسلام کے متعلق شبہات و بےجا اعتراضات کو دور کرنا _ یہ فقط علماء کرسکتے ہیں۔ (اللہ تعالی نے فرمایا : وجادلہم بالتی ھی أحسن) مجادلہ؛ علماء کی ذمہ داری ہے اور آج کے زمانے میں اسی کا دوسرا نام ڈیبیٹ ہے، آپ کو ڈیبیٹ کے لیے تیار ہونا ہے۔ ٭ دعوت دین یہ تمام امت کا فریضہ ہے اور اس کے لیے "حسنة" کا عام لفظ استعمال ہوا ہے لیکن مجادلے کے لیے اسم تفضیل کا لفظ "أحسن" کہا گیا ہے حسنة اور أحسن دونوں صیغوں میں فرق ہے أحسن یہ زیادہ اچھے طریقے سے، زیادہ اچھی تیاری کا متقاضی ہے اور علماء کو اس کے لیے تیار ہونا ہے۔
٭ آخر میں آپ نے بڑی قیمتی بات کہی کہ ہم نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کے مسائل اور احکامِ شریعت کو جاننے سے متعلق تین دور دیکھے ہیں۔ 1) پہلے دور میں لوگ مسئلہ پوچھتے تھے، فقط حکم بتایا جاتا کہ جائز ہے، ناجائز ہے، حرام ہے، حلال ہے تو وہ اسے مان لیتے اور مطمئن ہوجاتے تھے۔ 2) دوسرا دور آیا جس میں مسئلہ پوچھتے، حکم جائز، ناجائز بتانے کے ساتھ قرآن و حدیث کی دلیل بھی طلب کرتے اور 3) تیسرا دور جس میں مسئلہ دریافت کرنے پر حکم بتایا جاتا، دلیل دی جاتی لیکن اس سے تشفی نہیں ہوتی ہے مزید اس کی عقلی حکمتیں بھی پوچھی جاتی ہے اور اس کا بتانا بھی ضروری ہے، یہ تیسرا دور موجودہ دور ہے۔ اس لیے علماء کو حجۃ اللہ البالغۃ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب، "احکام اسلام عقل کی نظر میں" مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اور ہماری ایک کتاب "اسلام پر بےجا اعتراضات" ان کا اچھا مطالعہ کرنا چاہیے۔
_____________________
دھولیہ مالیگاؤں کا قلبی تعلق :
شہر دھولیہ مالیگاؤں گویا دو بہنیں ہیں جن کا میکہ ایک ہی ہے، ان کے واسیوں میں وہی محبت و یگانگت ہے جو دو ہم زلفوں (ساڑھوؤں) میں ہوتی ہے۔ حیدرآباد سے دھولیہ تشریف لانے والے معزز مہمانان کرام کو سننے ملنے 60 / کلو میٹر پڑوس مالیگاؤں سے شریک ہونے والے ائمہ و علماء کی اچھی نمائندگی رہی، پروگرام کے انتظام و انصرام میں بھی اہل مالیگاؤں کے کچھ نمائندے سرگرم رہے۔
مہمان مکرم سے تعلق :
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم جامعہ ابو الحسن کے سرپرستوں میں سے ہیں، مہتمم جامعہ کا آپ سے خصوصی تعلق بھی ہے، مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب علی الصباح حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور کچھ اساتذۂ جامعہ نے بھی آخری خصوصی پروگرام میں شرکت کرلی۔
اللہ پاک منتظمین پروگرام کو جزائے خیر دے، مقصد میں بامراد کرے اور شرکاء کو عمل کی توفیق بخشے۔
0 تبصرے