سفرِ سندگی؛ کیا دیکھا، کیا سیکھا؟ ____ ساتویں قسط



اب آتے ہیں اس چیز کی طرف جس کے لیے سندگی ، کرناٹک کا سفر ہوا، وہ مقصدِ سفر جس کی خاطر مشقتیں اٹھائی گئیں، چھٹیاں قربان کی گئیں۔ یہی اس سفر کی اہم ترین سوغات ہے یعنی شخصیت سازی کے چار روزہ ورک شاپ میں بیان کردہ کورس کا 'مالہ وما علیہ' جاننا۔

____ کورس کا تعارف _____

1) مادری زبان سیکھنے کا طریقہ :
     انسان کے لیے سیکھنے کے اعتبار سے دنیا میں سب سے آسان زبان؛ مادری زبان (mother tongue) ہے، بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کو ماں باپ کی طرف سے ایک نام ملتا ہے، اِس نام کے ذریعے سماج میں اک پہچان ملتی ہے، ایسے ہی اُسے ایک زبان ملتی ہے، اس زبان کے ذریعے معاشرے میں اک شناخت ملتی ہے۔
    اس زبان کو سکھانے میں باپ کی بہ نسبت ماں کا کردار زیادہ ہوتا ہے اس لیے اسے مادری زبان (mother tongue) کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز ماں کی گود سے اس طرح ہوتا ہے کہ ماں بچے کو پیار کرتی ہے، ممتا کے جوش میں اسے پیار بھرے ناموں سے پکارتی ہے، نظموں اور گیتوں کی لوریاں سناتی ہے۔ پھر اہل خانہ کے درمیان بچہ روزمرہ کی بات چیت سنتا ہے، دادی اماں سے سوتے وقت کہانیاں سنتا ہے اور ایک عرصہ دو ڈھائی سال سن سن کر دھیرے دھیرے بولنا شروع کر دیتا ہے۔
      یہ زبان سیکھنے، سکھانے کا فطری طریقہ ہے جو قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے، مہربان خالق اپنی مخلوق کو فطری طور پر جو چیز بھی عطا کرتا ہے وہ بہت آسان ہوتی ہے، اتنی کہ بسا اوقات اُس کی مشکل کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ خالقِ انسان اللہ پاک نے اسی چیز کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا _ ﴿ سبح اسم ربک الذی الأعلى ٭ الذی خلق فسوی ٭ والذی قدر فھدی ... ﴾ __ اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے۔ جس نے سب کچھ پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک بنایا۔ اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا، پھر راستہ بتایا، اس کی رہنمائی کی۔ ..... ___ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بچپن میں فطری طریقے پر سیکھا ہوا بہت پختہ اور پتھر کی لکیر ہوتا ہے، انسان اپنی مادری زبان عمر کے کسی بھی مرحلے میں کبھی نہیں بھولتا __ العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر 
     "مادری زبان" سیکھنے کے اس فطری طریقے پر دنیا کی کوئی بھی زبان اتنی ہی آسانی سے اور کم و بیش اتنی ہی مدت یعنی دو ڈھائی سال میں سیکھی جاسکتی ہے۔ "نو ماہی پرسنلیٹی ڈیولپمنٹ کورس" میں مولانا عبدالحق ندوی صاحب نے انگریزی، عربی زبانوں کے سیکھنے کا جو طریقہ پیش کیا وہ یہی مادری زبان سیکھنے کا طریقہ ہے جسے جدید طریقہ ہائے تدریس میں "ڈائریکٹ میتھڈ" وغیرہ کا مختلف نام دیا جاتا ہے۔

2) کورس کیا ہے؟
     سب سے پہلی چیز یہ جاننا ہے کہ یہ کورس کیا ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ یہ کورس زبان سیکھنے کے فطری طریقے کا بدل ہے، زبان سیکھنے کا فطری طریقہ یہ ہے کہ اہل زبان کے درمیان وقت گزارا جائے، ان کو سنا جائے، دیکھا جائے اور ان کی باتوں کو دہرایا جائے، ان کی نقل کی جائے۔ جس طرح کوئی بچہ اپنے گھر؛ اہل خانہ کے درمیان رہتا ہے، انہیں سن کر، دیکھ کر، نقل کرکے مادری زبان بولنے لگتا ہے یا دو چار سال کسی خلیجی ملک میں وقت گزارنے والا عجمی شخص؛ عربی سن کر، بولتا دیکھ کر عربی بولنے لگتا ہے اور کسی مغربی ملک میں کچھ عرصہ رہنے والا مغربی زبانوں پر قدرت پا لیتا ہے بالکل اسی طرز پر یہ کورس ترتیب دیا گیا ہے اور اس فطری ماحول کو جدید ذرائع ابلاغ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آنکھوں، کانوں اور زبانوں سے قریب کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کورس؛ زبان سیکھنے کے فطری طریقے کا بہترین بدل ہے۔

3) کورس میں سننے کی ترتیب کیا ہے؟:
      اہل زبان کو سنا جائے، بولتا ہوا دیکھا جائے اور ان کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، آخر میں نقل کرتے ہوئے دہرایا جائے۔ ایسا بار بار کیا جائے حتی کہ مادری زبانوں اور علاقائی زبانوں کی طرح مطلوب زبان کے الفاظ و تعبیرات ذہن و دماغ میں پیوست ہو جائیں، ان کے بولنے والے کے بولنے کی ادا اور محل استعمال؛ سننے والے کے اندر منتقل ہوجائیں۔

4) کورس کا عمومی طریقہ کیا ہے؟:
     اس سننے کے عمل کو مزید مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے مختلف مفید طریقے اپنائے گئے ہیں۔ سننا صرف سننا نہیں ہے، بلکہ سننا؛ سمجھ کر سننا اور اس کی نقل کرنا ہے۔ اِس سمجھنے اور نقل کرنے کی ترتیب یہ ہے کہ _ ۱) پہلے اچھی طرح سنا جائے، ۲) عربی زبان ہے تو اعراب لگایا جائے، ۳) نئے الفاظ کو نشان زد کرکے ان کے معنی لغت سے معلوم کرکے مکمل عبارت حل کی جائے، ۴) ایک ایک جملے کو سن کر، سمجھ کر ہو بہو نقل کرنے کی کوشش کی جائے، ۵) سیکھنے والا مبتدی ہو تو آسان چیزیں پہلے سنے یعنی قصے، کہانیاں، نظمیں وغیرہ، چاہے ابتداء میں معنی سمجھے یا نہ سمجھے، ۶) اہل زبان خطباء کو سنے، ۷) عام بول چال اور روزمرہ کی زبان کے لیے گفتگو پر مشتمل ڈرامے اور مکالمات کو سنے، ۸) ڈیبیٹ و مباحثے سنے، اور ۹) آخر میں صحافیوں، جرنلسٹوں کو سنے۔ 
     عربی اور انگریزی دونوں زبانوں کے لئے یہی ترتیب ہے، ابتداء میں طلبہ کیلئے پورا مواد تحریری شکل میں فراہم کرنا مفید ہوگا، طلبہ سنیں اور سمجھنے کیلئے تحریر کی طرف رجوع کریں، آہستہ آہستہ تحریر ہٹادی جائے اور راست سن کر سمجھیں۔

5) کورس سے استفادہ کا طریقہ کیا ہے؟ :
     مذکورہ بالا ترتیب کے ساتھ ضروری اور بامقصد ویڈیوز کا اچھا سا ذخیرہ ہو، ان ویڈیوز کو آسان سے مشکل کی ترتیب سے سنا جائے اور صبر و استقامت کے ساتھ سنا جائے، نتیجے کے ظاہر ہونے کی عجلت اور جلد بازی نہ ہو، یہ نہ سوچیں کہ ابھی سنا ہے اور گھنٹے بھر بعد یا ہفتے مہینے کے اندر اس کا نتیجہ ظاہر ہوجائے، نہیں بلکہ اس کے لیے چھ مہینہ، سال یا کئی سالوں کی مدت بھی لگ سکتی ہے، راقم الحروف نے اس کورس کے مرتب و بانی مولانا عبدالحق ندوی صاحب سے ملاقاتوں میں ایک سوال کیا تھا کہ آپ نے اس طرح سن کر کتنی مدت میں زبان پر قدرت پائی؟ آپ نے کہا کہ تین سال تو لگے ہوں گے۔ جب ترتیب دینے والے کو تین سال لگے ہیں تو بعد والوں کو کم از کم سال دو سال تو درکار ہوں گے، ترتیب دینے والا پہلے خود عملی تجربے سے گزرتا ہے پھر اسے مرتب کرکے آسان کرتا ہے، ساری چیزیں مہیا کرکے پیش کرتا ہے، اسے دیر لگ سکتی ہے لیکن بعد والوں کا وقت بچتا ہے۔ بہرحال سال دو سال کا وقت سمجھ کر چلنا ہوگا اور مستقل مزاجی سے کم از کم 45 ویڈیوز اخذ و استفادے کے مندرجہ بالا طریقے پر سننا ہوگا تبھی اس کورس سے صحیح استفادہ ممکن ہے۔

6) بانی و مؤلف مولانا عبدالحق ندوی کے عملی تجربات :
      آپ کے اساتذہ میں مولانا حضرت مولانا بلال حسنی ندوی ( ناظم ندوۃ العلماء لکھنو) اور مولانا عبدالسبحان ندوی صاحبان ہیں ان دونوں کی ایما و ہدایت پر آپ نے تمام اہم عصری تعلیم گاہوں، انگریزی زبان کے اہم اداروں اور مراکز میں جا کر طریقۂ تعلیم کا بغور مشاہدہ کیا، ضرورت پڑی تو مہنگی فیس ادا کر کے باقاعدہ داخلہ لیا، مہینوں قیام کیا اور اپنے مشاہدات سے اخذ کردہ طریقہ ہائے تدریس کو ان دونوں اساتذۂ کرام کے سامنے پیش کرتے رہے، ان کے مشوروں کی روشنی میں اپنے مدرسے بیت العلوم سندگی میں "نقد و اصلاح کمیٹی" کی موجودگی میں مسلسل تجربات کئے، کمیٹی کے نقد و اصلاح کے بعد اس کو منظم کرکے کامیاب عملی تجربات ہوئے۔ اس کی افادیت کے پیش نظر اس کورس کو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی جگہ دی گئی اور ندوے کے طلبہ اس میں دلچسپی سے حصہ لے رہے ہیں۔

7) بانی پر کورس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ :
     اس طریقے کو سب سے پہلے مولانا عبدالحق ندوی صاحب نے اپنے عمل میں لایا، مسلسل صبر و استقامت سے اس پر جمے رہے، آپ نے زبان سیکھنے کے مروجہ تمام طریقہ ہائے تدریس کو دیکھنے سمجھنے اور عملاً برتنے کے بعد اس طریقے پر شرح صدر حاصل کیا اور پھر انشراح قلب کے ساتھ جہد مسلسل، عمل پیہم کرتے رہے، تین سالہ محنت کے بعد آپ نے اس کے نتیجے کو محسوس کیا اور اب عربی زبان اور انگریزی زبان پر کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بولنے اور اعتماد سے بولنے کی قدرت انہیں حاصل ہے۔ عربی، انگریزی کے اہلِ زبان لوگوں سے بھی آپ بلا تکلف اعتماد سے گفتگو کرتے ہیں، عرب ممالک کے اسفار میں عرب علماء سے بھی آپ یوں ہی گفتگو کرتے رہے، جس کو آپ نے نجی ملاقاتوں میں ذکر کیا۔ اسی تاثیر کے سبب آپ اس نصاب کے متعلق بڑے پُر اعتماد ہیں، آپ نے آغاز ہی میں کہا کہ " آپ مجھ پر اعتماد کریں، میں کہتا ہوں کہ آپ 85 فیصد انگریزی، عربی سنیں، 15 فیصد مفوضہ کام کریں۔ ایسا چار، چھ مہینہ یا سال بھر کریں، آپ ڈائریکٹ انگریزی، عربی بولنا شروع کر دیں گے بالکل اُسی طرح جس طرح اردو بولتے ہیں، اردو بولتے وقت آپ جملہ سوچتے نہیں ہیں، سوچنے کی زحمت اور دقت کے بغیر بولتے ہیں، ایسے ہی آپ بلا تکلف و بلا دشواری انگریزی، عربی بولنے لگیں گے۔ ان شاء اللہ العزیز"
 
8) اس کورس کا کیا نتیجہ ظاہر ہوا؟ :
     اس کورس کو جاری ہوئے ابھی پانچ سال بھی نہیں گزرے لیکن جس مدرسے میں یہ کورس داخلِ نصاب ہے یعنی مدرسہ بیت العلوم سندگی، اس کے اکثر نئے فارغین جو یہاں دینی خدمات کے لیے اساتذہ منتخب ہوئے ہیں، ان ساروں کو بے تکلف انگریزی بولتا ہوا مشاہدہ کیا اور کانوں سے سنا، یہاں شعبۂ عالمیت کی کلاسوں میں تین سالوں میں اس کورس کو ترتیب دیا گیا ہے، ان تینوں کلاسوں کے طلبہ ہمارے سامنے پیش کیے گئے، ان کی کارکردگی کا مظاہرہ ہوا، ان کی نوٹ بک دیکھی، سن کر نقل کرنے کی اچھی صلاحیت سامنے آئی، ساری چیزیں اطمینان بخش اور نتیجہ خیز ہیں۔

جاری __________

9) نو ماہی پرسنلیٹی ڈیولپمنٹ کورس میں داخل طلبہ
10) نو ماہی کورس کی تفصیل اور نفیرِ عام
__ عام صورتحال
__ دو بڑے فائدے
__ سننے کا خاص طریقہ
__ اہلِ زبان خطباء و اسپیکرز
__ کورس کے مفید مضامین
__ نفیرِ عام

_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے