محاضرات اور نشستیں
دوسرے ہی دن ناشتے سے فارغ ہوکر طے شدہ نظام الاقات کے مطابق اسمارٹ کلاس میں حاضر ہو گئے۔
پہلی نشست تعارفی اور تشجیعی تھی، ناظم مدرسہ مولانا فضل حق صاحب کا خطاب بڑا حوصلہ افزا رہا، آپ نے کہا کہ ہم آپ حضرات کو اس عظیم مقصد سے اپنے مدرسے میں حاضر ہونے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ ہر جگہ جانا چاہیے، اچھی چیزیں اخذ کرنا چاہیے، ہمیں شہد کی مکھی کی طرح ہونا چاہیے جو ہر پھول پر بیٹھتی ہے اور رس چوس کر شہد بناتی ہیں۔ ہم خود بھی ہر جگہ جاتے ہیں، نظام دیکھتے ہیں اور مفید چیزیں اپڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔
آپ نے گاڑی کے گیر کی خوبصورت مثال دی کہ سڑک پر ٹریفک کا اندازہ کرکے گاڑی میں گیر بدلتے ہیں، ایک عالمِ دین کا گیر اس کی زبان ہے، اس کو مدعو قوم کی زبانیں جاننا چاہیے اور جہاں جیسے مخاطب ہوں؛ زبان کا گیر بدلنا چاہیے، مخاطب انگریزی داں ہیں تو انگریزی میں شروع، عربی داں ہیں تو عربی میں، علاقائی زبان والا ہے تو علاقائی زبان میں۔
دوسرا اہم خطاب مولانا محمد ایوب محی الدین ندوی (کلکیری، استاد تفسیر و عربی ادب) کا ہوا، آپ نے "وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومہ" کے ضمن میں دورانِ تقریر بڑی نکتے کی بات کہی کہ انبیاء اپنی مدعو قوم کی زبان میں بھیجے جاتے تھے، ساتھ ہی ان کی زبان بہت معیاری ہوا کرتی تھی، وہ زبان و بیان کی کمزوریوں سے پاک ہوا کرتے تھے اور بڑے ادب و سلیقے کی زبان بولا کرتے تھے۔ اس لیے ہم علماء کو بھی عربی، انگریزی، اردو اور علاقائی زبانیں بہت ستھری اور معیاری سیکھنا، بولنا چاہیے، اس کا مخاطب پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔
واقعی یہ بات درست ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ أنا افصح العرب : میں "عربوں میں سب سے زیادہ فصیح اللسان" بناکر بھیجا گیا ہوں۔ زبان شستہ و رواں ہو اور محلِ استعمال سے بھی واقف ہو تو کیا کہنے! ہر بات سنی جاتی ہے اور زندہ دلوں تک کانوں کے راستے اتر جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے؛
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
یہی بات قلم پر بھی صادق آتی ہے، تھوڑی ترمیم کے ساتھ؛
کون سی بات کہاں کیسے لکھی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات پڑھی جاتی ہے
بہرحال زبان کا فہم اور محل استعمال کا سلیقہ ہو تو ہر تقریر سنی جاتی ہے، ہر مضمون پڑھا جاتا ہے۔
اس کورس کے بانی و مرتب نے بھی بڑا حوصلہ افزا خطاب کیا، اس نصاب کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیا اور ان چار دنوں کو عزم و ہمت سے، محنت مجاہدے سے گزارنے کی تلقین کی، حضرت مولانا بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم کا ایک بلیغ جملہ نقل کیا جو مولانا نے سندگی ہی کے ایک اہم دعوتی سفر میں کثرتِ پروگرام اور تھکا دینے والے نظام الاوقات میں کچھ تخفیف کرنے اور آرام کا مشورہ دینے والے شخص سے کہا تھا کہ ___ " اگر آرام ہی کرنا ہوتا تو گھر کیا برا تھا؟ " __ یعنی ہم نے سفر کیا ہے تو اسی کام کے لیے کیا ہے، اب اس میں آرام ہو نہ ہو؛ یہ ثانوی درجے کی چیز ہے، کام ہونا چاہیے۔ یہ ذکر کرکے آپ نے ہمیں خاموش پیغام دیا کہ آپ لوگوں نے اتنا لمبا سفر کیا ہے، جس مقصد سے کیا ہے وہ مقصد پورا ہونا چاہیے، خواہ آرام اور دوسری چیزوں میں کچھ کمی کسر رہ جائے گوارا کرلیں۔
کہا جاتا ہے "First Impression is the last impression" پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے۔ عزیمت سے لبریز فقرے "اگر آرام ہی کرنا ہوتا تو گھر کیا برا تھا؟" کرناٹک کے اسی بیجاپور کے گول گنبد کی صدائے باز گشت کی طرح اس جملے کی بھی گشت اور گونج؛ از اول تا آخر چاروں دن رہی، اسی طرح ناظمِ مدرسہ کی باتیں بھی طلبہ میں گونجتی رہی، تقریبا تمام ہی طلباء نے اپنے فیڈ بیک میں اُن کی باتوں کو نقل کیا۔
_____________________
بقیہ نشستیں و محاضرات
صبح تا دوپہر دو نشستیں دروس و محاضرات کی اور مغرب بعد ایک نشست تھی جو دن کے محاضرات کی عملی مشق کے لیے خاص تھی۔
جمعرات 28/ ستمبر : تعارف اور اہل زبان انگریزی اسپیکرز کو سننے، سمجھنے کا طریقہ
جمعہ 29/ ستمبر : اہل زبان عربی خطباء کو سننے اور سمجھنے کا طریقہ
سنیچر 30/ ستمبر : 1) کمپیوٹر ایپلیکیشنز کا تعارف _ 2) سُنَّہ انگلش میڈیم اسکول کی وزٹ _ 3) فنکشنل گرامر 145 یونٹ
اتوار 1/ اکتوبر : انگریزی ادب _ 2) رابطے کی مہارت _ 3) ہفتے واری تقریریں _ 4) ڈیبٹ اور مباحثے
آخری دن مغرب بعد کی نشست فیڈ بیک و تاثرات کی تھی۔
عمومی تاثر :
تمام نشستیں اور محاضرات بہت قیمتی تھے، ہر مرتبہ نئی چیزیں حاصل ہونے کا احساس ہوا، مدرسے، اسکول اور کمپیوٹر کے شعبوں کی وزٹ میں اہلِ مدرسہ و انتظامیہ نے بڑی کشادہ دلی سے تعاون کیا، سارا نظام بہت تفصیل سے سمجھایا، جو پوچھنا چاہا سب کچھ فراخ دلی سے بتایا۔ جزاھم اللہ خیر الجزاء _ یہاں انگریزی زبان پر خصوصی توجہ ہے تو اردو؛ بنیادی زبان سے غفلت بھی نہیں ہے؛ اس زبان کے سکھانے کا بھی مؤثر نظام ہے جس کا تعارف مولانا کلیم احمد ندوی صاحب نے کروایا، کمپیوٹر، اور جدید ذرائع ابلاغ سے مستفید ہونے کے مفید کورسیز بھی جاری ہیں۔ عصری و دینی تعلیم کا بہترین سنگم یہاں نظر آیا، جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں کے آئندہ کے بہت سے منصوبے یہاں ماشاء اللہ حال میں منظم انداز میں جاری و ساری نظر آئے۔
__ لائق و فائق فرزند مولانا عبدالحق ندوی صاحب :
مدرسے میں عربی و انگریزی زبان کا ماحول پیدا کرنے والے ناظمِ مدرسہ کے لائق وفائق فرزند مولانا عبدالحق ندوی صاحب ہیں، عمر 37 سال ہے لیکن آپ کی کچھ خاص عادتیں، کچھ خاص اوصاف ہیں جن کے سبب کم عمری ہی میں ایسا نتیجہ خیز ماحول، اتنا بڑا کام اپنے مدرسہ میں کھڑا کردیا۔ عام طور پر ذمہ دارانِ مدارس، مہتمم و ناظم اور شیخ الحدیث وغیرہ کے بچے؛ والد جیسی اہلیت و صلاحیت، ویسے اوصاف اپنے اندر نہیں پیدا کرپاتے الا ماشاءاللہ لیکن ان میں یہ بات نہیں، پدری اوصاف بھی ہیں اور بہت سی صفاتِ حمیدہ اس پر مستزاد ہیں۔
باپ کا علم؛ نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو
مولانا منصوبہ بند محنت کرنے اور مسلسل محنت کرنے کے عادی ہیں، بڑوں سے دائمی رابطے میں رہ کر استفادہ جاری ہے، نئے تجربات، نئی سکلز ونئی مہارتیں حاصل کرنے کی طلب ہے۔ مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی طرح خیر و خوبی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، ان کے یہاں ان دنوں ششماہی کی تعطیلات ہیں، حالیہ دنوں میں اسی غرض سے "ملیشیا" کے سفر پر ہیں۔ سچ کہا جاتا ہے ؛ بڑوں سے اصلاحی و تربیتی رابطہ اور مخلصانہ تعلق رکھنے والے ہی بڑا کام انجام دیتے ہیں، اُن کے بتائے ہوئے نہج پر امتیازی محنت کرنے والے ہی ممتاز مقام پر ہوا کرتے ہیں۔ یہ بات "ناظمِ مدرسۂ سندگی" کے فرزند ارجمند مولانا عبدالحق ندوی صاحب پر صادق آتی ہے۔
آپ؛ بڑی سوچ و فکر کے حامل، قوم و ملت کا درد رکھنے والے، ملت سازی کے ساتھ افراد سازی کا کام کرنے والے حضرت مولانا بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم اور مولانا عبدالسبحان صاحب کی نگاہوں میں رہ کر قدم بڑھا رہے ہیں، ان کا دیا ہوا مشن لیکر چل رہے ہیں۔
آپ کے بقول حضرت مولانا سید نور صاحب ملی ندوی دامت برکاتہم (بیڑ، مہاراشٹر) آپ کے اولین استاذِ دینیات ہیں، ان کی بڑی دعائیں رہی ہیں۔ ابتدائی اساتذہ کی دعائیں اور اکابر اساتذہ کی رہبری آپ کو چمکارہی ہے، آگے بڑھا رہی ہے اور مشکلات میں استقامت کا سبب بن رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے؛
دور بیٹھا کوئی تو دعائیں دیتا ہے
میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے
اس چار روزہ ورکشاپ میں ہمارے سیکھنے کی طلب سے زیادہ؛ اُن کے سکھانے کی تڑپ کا احساس ہوا، ہم سے زیادہ آپ نے نظام الاوقات کی پابندی کی، واقعتاً آپ نے بڑوں سے سیکھا ہوا سبق یاد کیا اور ان کے دیئے ہوئے مشن سے عشق پیدا کیا، اسی لئے 9/ 10 ربیع الاول، جمعرات جمعہ کی چھٹیوں کو بھی ہمارے دروس و محاضرے کیلئے قربان کردیا۔ کسی نے سچ کہا ہے؛
مکتبِ عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
دعا ہے؛ اللہ پاک ہمیں آپ کے مشن میں شریک ومعاون بنائے اور مقصد میں بامراد کرے۔ آمین
ناظمِ مدرسہ کا اہم پیغام :
ناظمِ مدرسہ حافظ فضل حق صاحب نے ابتدائی خطاب میں ایک اہم بات کہی کہ "شہد کی مکھی کی طرح بننا چاہیے جو پھول پر بیٹھ کر، میوے کے مغز اور پھلوں کے گودے کی طرح ہر پھول کی اصل چیز اس کا رس لیتی ہے۔" گویا آپ نے یہ پیغام دیا کہ اسی طرح "اہل مدارس کو چاہیے کہ وہ مختلف دینی اداروں میں جاتے رہیں اور ہر جگہ کچھ نہ کچھ خوبی ہوتی ہے اس خوبی کو اپنا کر اپنے اپنے مدرسے میں امت کے لیے؛ خوبیوں کے شہد کا ایک ایک چھتہ بنائیں۔"
تدبر کی بات (قرآن کی روشنی میں) :
سوچنے کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی میں یہ خوبی کیوں اور کیسے آئی؟ اہل مدارس ایسی خوبی اپنے اندر کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ ___ کلام الٰہی سے اس سلسلے میں رہنمائی ہوتی ہے۔
شہد کی مکھی کی اس خوبی کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے خالق کی طرف سے آنے والی وحی کی طرف کان دھرا، توجہ سے بات سنی اور اپنے پروردگار کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑی، ہر مہکتے پھول سے لذیذ رس چوس کر لذتوں کا خزانہ اور صحت بخش آمیزہ "شہد کا چھتہ" تیار کیا، پھر پروردگار نے اس میں شفا و صحت پیدا فرما کر اعلان کیا "فیہ شفاءٌ للناس" ارشاد باری ہے؛
وأوحى ربك إلى النحل أن اتخذي من الجبال بيوتا ومن الشجر ومما يعرشون ثم كلي من كل الثمرات فاسلكي سبل ربك ذللا ۚ يخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فيه شفاء للناس إن في ذلك لآية لقوم یتفكرون". (النحل، آية: 68، 69)
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ تو پہاڑوں میں، اور درختوں میں اور لوگ جو چھتریاں اٹھاتے ہیں ان میں اپنے گھر بنا۔ ۞ پھر ہر قسم کے پھلوں سے اپنی خوراک حاصل کر، پھر ان راستوں پر چل جو تیرے رب نے تیرے لیے آسان بنا دیے ہیں۔ (اسی طرح) اس مکھی کے پیٹ سے وہ مختلف رنگوں والا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینا ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔ ۞
___ شہد کی مکھی کی طرح
اہل مدارس بھی حاملینِ وحی ہیں، پیغمبر عربی ﷺ کی طرف سے وراثت میں ملنے والی آخری ربانی وحی کے محافظ ہیں، اگر یہ بھی اس وحی کی رہنمائی کو اختیار کریں، شہد کی مکھی کی طرح نفع بخش اوصاف، نفع بخش طریقۂ تعلیم و تربیت اپنا کر اپنے اندر نافعیت پیدا کریں تو آیت کریمہ _ وأما ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض : اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔_ کے مطابق انہیں بقا حاصل ہوگا، دنیا والوں کے لیے نافع بن کر، عالم بھر کے لیے شہد کی طرح میٹھے ہوکر مقبول بنیں گے، آنکھوں کا تارا بنیں گے، اور دنیا والوں کی جسمانی و روحانی بیماریوں کے لیے صحت و شفا کا نسخہ "بشکل قرآن" عملاً و خلُقاً پیش کرسکیں گے۔ (کان خلقہ القرآن) __ اللہ پاک نے قرآن کو اور قرآنی تعلیمات کو بھی شہد ہی کی طرح؛ شفا کہا ہے۔ ارشاد باری ہے؛ يا أيها الناس قد جاءتكم موعظة من ربكم وشفاء لما في الصدور وهدى ورحمة للمؤمنين. (10 يونس: 57)
ترجمہ: لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔
___ گھریلو مکھی کی طرح نہیں
اور اگر انسان شہد کی مکھی کی صفت کو نہ اپنائے، خیر و خوبی کی طرف نہ دیکھے تو پھر وہ گھریلو مکھی کی طرح ہوجاتا ہے، گھریلو مکھی اپنے ایک بازو میں بیماری لے کر اڑتی ہے اور جہاں بیٹھتی ہے بیماری ہی چھوڑتی ہے اور پھر عادت ایسی خراب کہ سارے اچھے جسم کو چھوڑ کر زخم پر، پھوڑے پھنسی پر بیٹھے گی، کوڑا کرکٹ جیسے گندگی کے مقام پر گندی چیزوں پر بیٹھتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ابن عبدالرحمن العریفی نے اپنی قیمتی کتاب "استمتع بحياتك" میں ایک زرین قول لکھا ہے؛
___ نحلة .. وذباب !! ____
كن نحلة تقع على الطيب وتتجاوز الخبيث .. ولا تك كالذباب يتتبع الجروح !!
اس کا اردو ترجمہ "زندگی سے لطف اٹھائیے" میں اس کو یوں نقل کیا گیا ہے
⬆️__________⬇️
_ شہد کی مکھی اور گھر یلو مکھی _
شہد کی مکھی کا طرز عمل اپنا ئیں جو میٹھے پر بیٹھتی اور کڑوے سے کتراتی ہے۔ گھریلو مکھی کی طرح نہ ہوں جو ہمیشہ زخموں کی تلاش میں رہتی ہے۔
جاری ________
____ کورس کا تعارف _____
1) مادری زبان سیکھنے کا طریقہ
2) کورس کیا ہے؟
3) کورس میں سننے کی ترتیب کیا ہے؟
4) کورس کا عمومی طریقہ کیا ہے؟
5) کورس سے استفادہ کا طریقہ کیا ہے؟
6) بانی و مؤلف مولانا عبدالحق ندوی کے عملی تجربات
7) بانی پر کورس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
8) اس کورس کا کیا نتیجہ ظاہر ہوا؟
_____________________
0 تبصرے