بہن کے رشتے کی مٹھاس کیا ہوتی ہے!

#دیکھنا دیدۂ عبرت نگاہ سے

✍️ ابو نعمان ندوی

   چند بھائی اپنے اپنے کاروبار سے بار بار وقت نکال کر اپنی ایک بہن کا گھر تعمیر کروا رہے ہیں، اپنا روپیہ بھی لگا رہے ہیں، وقت بھی دے رہے ہیں اور جسمانی محنت کے ذریعے پسینہ بھی بہا رہے ہیں۔ ان سے پوچھا بھئی یہ کیوں کر رہے ہیں؟ کس لئے کر رہے ہیں؟ ان کا ایک ہی جواب تھا "بہن کا گھر بنا رہے ہیں، بہن کے لیے!"
 اللہ اکبر! 

    یہ بہن کی محبت ہے بھائیوں کے دل میں کہ وہ اس رشتے کی وجہ سے اس کے لیے مالی، جسمانی اور وقت ہر چیز کی قربانی دے رہے ہیں جبکہ اِس زمانے میں ایسے بھائی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی بہنوں کا حق بغیر ڈکار لیے ہضم کر جاتے ہیں، اُن کو احساس تک نہیں ہوتا، اور دوسری طرف یہ بھائی ہیں!

دونوں قسموں میں کیا فرق ہے؟
     فرق اتنا ہے کہ اِن بھائیوں کی فطرتِ سلیمہ باقی ہے، جب فطرت؛ سلیم ہو تو یہ رشتہ ایسے ہی مٹھاس اور حلاوت سے لبریز ہوتا ہے، اٹوٹ ہوتا ہے کبھی نہیں ٹوٹتا، ان رشتے کی مٹھاس ایسی ہے کہ ایک بھائی؛ بہن کیلئے اپنا مال، اپنا پیسہ، اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
     کہتے ہیں __ شادی کے بعد بیوی اس رشتے میں کھٹاس پیدا کر دیتی ہے، بھائیوں کا بہنوں سے حسنِ سلوک انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن یہ بات بھی بے اثر ہوتی ہے جب تربیت پختہ اور فطرت بے غبار ہو۔

       اور وہ جو لوگ اپنے بہنوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہیں، حق مار لیتے ہیں، ان کے پیسے کھا جاتے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے، ان کی فطرت میں خرابی آجاتی ہے، خونی رشتے پر مال اور دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے اور روپے پیسے، مال و دولت کی چاہت میں اس رشتے کی مٹھاس سے محروم ہو جاتے ہیں، گویا وہ اس رشتے کو کھو دیتے ہیں۔
     سلام ہو اِن بھائیوں پر اور ان کی اپنی بہنوں سے محبت پر!

____ تدبر کی بات
      فطرت کی سلامتی باقی رکھنے میں والد کی تربیت بھی کار فرما ہے، ان بھائیوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ ان کا معاملہ تا حیات اپنی بہنوں کے ساتھ کیسا مثالی تھا، انہوں نے اپنی پھوپیوں کے ساتھ والد کے حسین سلوک کو دیکھا اور غیر شعوری طور پر وہ چیز ان کے اندر منتقل ہوئی۔ فطرت کو بنانے اور بگاڑنے میں ماں باپ کی تربیت بہت بنیادی عنصر ہے، اولاد کی فطرت کو بنانے اور بگاڑنے میں ماں باپ کے کردار سے متعلق یہ حدیث یاد آتی ہے ؛
ما مِن مَوْلُودٍ إلَّا يُولَدُ علَى الفِطْرَةِ، فأبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أوْ يُنَصِّرَانِهِ، أوْ يُمَجِّسَانِهِ، كما تُنْتَجُ البَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِن جَدْعَاءَ، ثُمَّ يقولُ أبو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: {فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا} [الروم: 30] الآيَةَ. _الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري)
ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ..........
    مسلمان کا بچہ فطرۃً اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے پختہ اور سچا مسلمان بناتے ہیں یا تربیت سے غفلت برتتے ہوئے کچا اور ناکارہ مسلمان

اچھے ماں باپ بے بدل نعمت ہیں 
     سچ کہا ہے کسی نے کہ ماں باپ کی تربیت کمہار کے بنائے ہوئے برتنوں کی طرح ہے، جتنی مہارت اور محنت سے وہ مٹی گوندھتا، مناسب انداز میں ڈھالتا اور اپنی کاریگری دکھاتا ہے اُسی اعتبار سے بازار میں اسکی قیمت لگتی ہے۔ اسی طرح اولاد بھی ماں باپ کی فکر و کڑھن اور تعلیم و تربیت کے بقدر سماج اور معاشرے میں عزت و احترام پاتے ہیں۔

دعا ہے اللہ پاک ان بھائیوں کی فطرت کو سلیم رکھے، بہن بھائی کے رشتے کی حلاوت و مٹھاس میں مزید شیرینی پیدا کرے۔

_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے