گلشن خطابت کی بامقصد مشورتی میٹنگ میں مہمان مکرم کا قیمتی خطاب اور اجراءِ کتاب



✍️ *نعیم الرحمن ندوی*  

         *یکم جولائی 2025ء بروز منگل بعد نماز عشاء* فورا مسجد عمر ابن خطاب رض (بڑا قبرستان مالیگاؤں) میں **گلشن خطابت گروپ** کے اراکین کی اہم مشورتی نشست منعقد ہوئی۔ راقم الحروف بھی برادر محترم مفتی محمد عامر یاسین صاحب کی دعوت پر شریک ہوا۔ جس میں حیدرآباد تلنگانہ سے تشریف فرما مشہور خطیب و معروف مصنف، حضرت مولانا مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب مدظلہ کا مختصر لیکن پر اثر اور پرمغز خطاب ہوا۔ یہ خطاب؛ خطباء و ائمہ مساجد اور امت کی اصلاح و تربیت کی اہم ذمہ داری انجام دینے والے طبقہ خواص کیلئے بڑا مفید محسوس ہوا۔ اسی احساس کے پیش نظر اہم باتیں صفحہ قرطاس کے حوالے کرنے کا شدید داعیہ پیدا ہوا۔ 📝  

 🌹 **مہمان مکرم کی اہم باتیں** 🌹  
📚 **آپ نے تقریر کی خوب اچھی تیاری اور مطالعے کی تاکید** کے طور پر کہا:  
"جس تقریر سے ہمارے علم میں اضافہ نہ ہو اس تقریر سے سامعین کے علم میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جو خطیب محنت سے سناتا ہے اس کو سامعین بھی محنت سے سنتے ہیں۔ جو سو کر سناتا ہے، سامعین بھی اس کو سو سو کر سنتے ہیں۔ ہم پابند ہو جائیں سامعین بھی پابند ہو جائیں۔"  

🎯 **ہر عنوان پر بات کرنا ہر ایک کی اہلیت نہیں** اس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:  
"ہر آدمی ہر موضوع پر بولنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اپنی حیثیتِ عرفی، اپنا علم، اپنی عملی سطح اور اپنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اگر کوئی مولانا طارق جمیل صاحب جیسا بولنے کی کوشش کرے جب کہ علم و عمل میں ان کے برابر نہیں ہے اور کوئی مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب جیسا بولے اور حکومت و حکمرانوں کو خطاب کرے جب کہ وہ ان کے مقام کو نہیں پہنچا تو جواب میں اس کے لیے مشکلات اور مصیبتیں کھڑی ہوں گی۔"  

💔 **آپ نے بڑی گہری اور سبق آموز بات فرمائی** کہ خود کے درد و فکر پر مبنی خطاب ہو، مشہور مقررین کی نقالی نہ ہو۔ فرمایا:  
"جس موضوع پر ہفتوں، مہینوں غور و فکر کیا ہو، جس موضوع پر امت کے تئیں درد و کڑھن پیدا ہوچکی ہو اس پر خطاب ہو تو سامعین پر اثر ہوتا ہے۔ بچے کے فوت ہونے پر ماں کے رونے اور کرائے کے رونے والیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔"  

📖 **زبان و بیان کی آسان تعبیر و اسلوب اختیار کرنے کی ہدایت** فرماتے ہوئے مولانا منظور نعمانی صاحب کی کتاب *اسلام کیا ہے؟* کی تالیف کا واقعہ گوش گزار کیا اور فرمایا کہ وہ کتاب لکھ کر اپنی اہلیہ کو اور کم علم عام لوگوں کو سنا کر پوچھتے کہ سمجھا؟ اگر نہیں کہتے تو دوبارہ آسان لکھتے، دسیوں مرتبہ ایسا کرنے پر جب جواب ملتا کہ سمجھ رہے ہیں تو کتاب کی اشاعت کرتے اور فرماتے کہ:  
"اظہارِ علم نہیں؛ اشاعتِ علم مقصود ہے۔" آپ نے اس کے ذریعے تاکید کی کہ خطیب کی زبان آسان اور عام فہم ہونا چاہیے۔   

💔 **اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ خطابت ہو**، اس پر آپ نے فرمایا:  
"خطابت میں سامعین کی حقارت اور تذلیل نہیں ہونا چاہیے۔ خطیب کے دل میں اگر سامعین کی تحقیر و تذلیل ہوگی اور الفاظ و تعبیرات سے اس کا اظہار ہوگا تو بجائے نفع کے نقصان اور بجائے ثواب کے گناہ ہوگا۔ اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ جو کمی اپنے اندر دیکھے اس پر بیان کریں۔ یہی طریقہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، یہی طریقہ مولانا یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اکابرین کا تھا اور یہی طریقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بھول کر تقریر و خطابت نہیں فرماتے بلکہ اپنے کو سب سے پہلے شامل سمجھتے تھے اور اس کا برملا اعلان کرتے تھے۔ 🌟 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  
*اوصيكم ونفسي اولا بتقوى الله.*  
اے لوگو! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو وصیت کرتا ہوں اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی۔"  

⏳ **وقت کے اندر تقریر سمیٹنے اور مکمل کرنے کی تاکید** کرتے ہوئے کہا:  
"تقریر کے آخر میں دو تین منٹ میں تقریر کا خلاصہ ضرور بیان کرنا چاہیے اور وقت کا خیال رکھ کر تقریر ہونا چاہیے۔ 🕒 جو وقت طے شدہ ہو اس پر بیان ختم کر دیں، پانچ منٹ بول کر آدھا گھنٹہ بیان کرنا وعدہ خلافی ہے، اس سے بچیں۔ 🚫"  

📋 **موضوع سے متعلق بڑی اہم بات** بتائی کہ موضوع دو قسم کے ہوتے ہیں:  
1️⃣ **موسمی**  
2️⃣ **عمومی**  
عمومی مضامین میں عقائد اور اصلاح معاشرت و اصلاح نفس وغیرہ کے عناوین ہیں۔ اور موسمی میں ماہ و ایام اور درپیش حالات جیسے محرم، ربیع الاول اور رمضان المبارک وغیرہ میں خطابات کے عناوین موسمی ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی خاص مسئلہ، خاص حالات پیش آجائیں۔ اسی طرح کبھی کبھی کسی جمعہ کو خطبہ اور خطاب جمعہ کی اہمیت بھی بتانا چاہیے۔ 

🌟 **تاثیر کیسے آئے بیان میں** اس کو بتایا کہ:  
"بیان و دعوت میں تاثیر دعا سے ہوتی ہے۔ اگر دعا دعوت سے بڑھ جائے تو تاثیر ہوگی ورنہ دعوت دعا سے بڑھ جائے تو دعوت و بیان میں نفسانیت آجاتی ہے۔ نگاہ اللہ سے ہٹ کر خود پسندی کی طرف چلی جاتی ہے کہ میں نے ایسا بیان کیا، میں نے ایسی باتیں کی وغیرہ وغیرہ۔"  
مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے پاکیزہ خلوتوں کی اہمیت و تاثیر بتائی کہ:  
"تمہاری خلوتیں جتنی نورانی ہوگی یعنی دعا اور تقوی طہارت والی ہوگی تمہاری جلوتیں یعنی تمہارا عوام سے خطاب و گفتگو اتنا منور ہوگا۔ ✨ اس لیے خلوتوں کو بنانے، سنوارنے کی بے انتہا فکر ہونا چاہیے۔"  

🎤 **مہمان مقرر کا قابل تقلید عمل** 🎤  
مہمان مقرر کا انداز بیان بہت مؤثر اور مسنون انداز خطابت سے آراستہ معلوم ہوا۔ آپ بہت ٹھہر ٹھہر کر اور بہت واضح انداز میں، نپے تلے الفاظ و عبارات میں گفتگو فرما رہے تھے۔ باتیں سنتے ہوئے ذہن نشین اور دل نشین ہوتی جا رہی تھیں۔ وقت کی پابندی کا آپ نے خود خیال رکھا، کہا 10 منٹ خطاب کروں گا اور 10 سے 11 منٹ نہیں ہوا آپ نے بات مکمل کرلی اور مائک دوسرے کو تھما دیا۔ 
⏰ یہ بات لائن تحسین تو ہے، قابل تقلید بھی ہے۔

📚 **اجراءِ کتاب: گلشنِ خطابت کی کارگزاری** 🌟  
اس بابرکت تقریب میں **گلشنِ خطابت** کے قیام، اس کے عظیم مقاصد، اب تک کی شاندار کارگزاری اور خطبہ جمعہ کے سلسلے میں ائمہ مساجد و مقررین کی ذمہ داریوں پر مشتمل کتابچہ، جو کہ **مفتی محمد عامر یاسین ملی رحمانی** صاحب نے مرتب کیا، مہمانانِ گرامی قدر **حضرت مولانا مفتی ابوبکر جابر قاسمی** صاحب اور **حضرت مولانا افتخار سالک قاسمی** صاحب دامت برکاتہم کے مبارک ہاتھوں سے اجراء ہوا۔  
📖 اس کتابچے کا مطالعہ ائمہ مساجد اور مقررین کے لیے نہایت مفید اور رہنما ثابت ہوگا۔  
✨ **ماشاءاللہ** اس پروقار نشست میں تقریباً **70 ائمہ مساجد اور مقررین** نے شرکت کی اور تقریب کو رونق بخشی۔  

🌟 **اخیر میں گلشن خطابت کے اس اجتماعی نظام پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا**، دعائیں دیں۔ حضرت مولانا افتخار سالک قاسمی صاحب بھی نشست میں تشریف فرما تھے ،آپ ہی کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا۔

🌹 اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور گلشنِ خطابت کے مشن کو مزید کامیابی عطا کرے۔ آمین!


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے