سفرِ سندگی؛ کیا دیکھا کیا سیکھا؟ ____ پانچویں قسط



سفر کی اصل منزل :
    سفر کی اصل منزل مدرسہ بیت العلوم سندگی کرناٹک تھی، بیجاپور کی سیاحت کے بعد دوسرے دن عشاء کے بعد سندگی روانہ ہوئے، ایک گھنٹے میں مدرسہ پہنچے، ماشاء اللہ وہاں ناظمِ مدرسہ حافظ فضل حق صاحب، مفتی عبدالحق ندوی صاحب سمیت اساتذۂ مدرسہ کی بڑی تعداد استقبال کیلئے موجود تھی، گرمجوشی سے مصافحہ و معانقہ ہوا، پرتکلف عشائیہ ہوا اور شیڈول کے مطابق دوسرے ہی دن سے محاضرات کی نشستیں شروع ہوگئیں۔

مدرسہ بیت العلوم سندگی، کرناٹک :

     سندگی کا مدرسہ بیت العلوم اپنی عمر کے 25 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے، اطراف و اکناف میں اس کے نوجوان فضلاء کے ذریعے فیضانِ علمی و دعوتی خوب پھیل چکا ہے۔ اس مدرسے کی زمین کم و بیش 50 ایکڑ پر مشتمل ہے، چند ایکڑ پر مدرسے کی عمارتیں، اساتذہ کے کوارٹرز ہیں، بقیہ زمینوں پر موسمی اجناس کی کاشتکاری کے ذریعے مدرسہ خود کفیل بننے کی طرف گامزن ہے۔


مدرسہ اور انگلش میڈیم اسکول :
      مدرسے میں لڑکوں کی تعداد 300 کے آس پاس ہے اور لڑکیوں کی تعداد کچھ 250 ہے، مدرسے کے ساتھ "سُنَّہ انگلش میڈیم ہائی اسکول" بھی چل رہی ہے، مدرسہ، اسکول دونوں ہی اچھے تعلیمی و تربیتی نظام کے ساتھ جاری و ساری ہیں، اساتذہ بھی بڑی مستعدی سے فرائضِ منصبی کو بخوبی ادا کرتے ہیں، ناظمِ مدرسہ کی نظام پر کافی مضبوط گرفت ہے۔


مدرسے کے ناظم (حافظ فضل حق صاحب) :
     ناظم مدرسہ حافظ فضل حق صاحب دامت برکاتہم بڑے وسیع النظر اور وسیع الظرف ہیں، دور اندیش اور نوشتہ دیوار پڑھ لینے والے ہیں، دینی تعلیم حفظِ قرآن کے ساتھ اعلی عصری تعلیم سے آراستہ ہیں، عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے عربی میں ایم اے، بی ایڈ ہیں، "انجمنِ اسلام عربک کالج، سندگی" کے پرنسپل رہ کر ابھی چار سال قبل ہی ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں بھی جوانوں کی سی چستی و پھرتی اور دینی کاموں کا جوش ہے، مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب کے اپنے مدرسہ آنے پر مزید متحرک ہوگئے اور مدرسے اور اطراف کے علاقوں میں مہتمم صاحب کے متعدد بیانات کروائے، قوم و ملت کے تئیں بڑے عزائم اور بڑے ارادے رکھتے ہیں۔ زادهم الله علما وفضلا وعمرا



مدرسے کے بانی (مولانا محمد ایوب ندوی، بھٹکلی صاحب) :
     مدرسے کے بانی مولانا محمد ایوب ندوی بھٹکلی صاحب ہیں، قلندرانہ مزاج کے حامل، عمر کا 70 کا عدد پار کر چکے ہیں، طلبہ سے خوب گھل مل کر رہتے ہیں، ان کی صحت کی فکر کرتے ہوئے خود ہی یونانی اور روحانی طریقۂ علاج سے علاج کرتے ہیں، ان کی محبت کم عمر طلبہ میں خوب رچ بس گئی ہے، ہمارے چار روزہ قیام کے دوسرے ہی دن مدرسے میں رونق افروز ہوئے، طلبہ کو یوں محسوس ہوا کہ ہمارے خاندان کے بزرگ دادا نانا آگئے ہیں، بڑی دلچسپ اور مقناطیسی شخصیت ہیں، عصر بعد جیسے ہی بچوں سے خطاب کے لیے بیٹھتے ہیں سارے بچے اک دم سے کھنچ کر ان کے قریب یوں سمٹ جاتے ہیں جیسے لوہے کے چھوٹے ذرات مقناطیس کی جانب کھنچ جاتے ہیں۔ 
      نصابی کتابیں لکھ کر آپ طلبہ کی تعلیمی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں اور یوں مجلسوں کے ذریعے گھل مل کر روحانی و جسمانی تربیت بھی فرما رہے ہیں۔


مدرسے کی خاص بات :
      فی زمانہ فقط انگریزی زبان کا بول لینا، اس زبان میں تکلم کرلینا ہی علم و فن کی معراج سمجھ لیا گیا ہے، ملکِ ہندوستان میں اس کی مرعوبیت ذہن و دماغ میں ہر جگہ بیٹھ گئی ہے۔ اس پس منظر میں اس مدرسے کی انگریزی زبان کا رعب و دبدبہ علاقے کے غیر مسلم ڈیپارٹمنٹ پر ایسا ہے کہ جب انہیں مدرسے کے پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے تو کتراتے ہیں اور آکر بہت سنبھل کر بات کرتے ہیں، وجہ یہی ہے کہ ان افراد سے ملنے والا بھی ان سے انگریزی میں گفتگو کرتا ہے، یہاں کے انگریزی پروگراموں میں سارا پروگرام انگریزی ہی میں چلتا ہے، طلبہ، اساتذہ انگریزی ہی میں اظہار خیال کرتے ہیں، ان معزز مہمانان کو بھی چار و ناچار انگریزی ہی میں کہنا پڑتا ہے، فارغینِ مدارس کا انگریزی نطق (پروناؤنسیشن) فنِ تجوید میں حروف کی مشقوں کی وجہ سے بہت نکھرا اور صاف ہوتا ہے، جبکہ ان مہمان افراد کے انگریزی نطق (پروناؤنسیشن) میں علاقائی زبانوں کی بو (The flavour of regional languages) ہوتی ہے، جس کا احساس کرکے جلد ہی یہ مرعوب ہوجاتے ہیں۔



مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں، مہاراشٹر :
      سندگی، کرناٹک کے اس مدرسے "بیت العلوم" کو مالیگاؤں، مہاراشٹر کے مدرسے "بیت العلوم" سے اس طور مناسبت ہے کہ سندگی کا یہ مدرسہ چھوٹا سا تھا، کچھ چھوٹا سا ہی نام تھا، دائرہ کار بڑھنے پر اچھا سا نام رکھنے کا مشورہ ہوا، اسی مشورے میں بیت العلوم مالیگاؤں کے قدیم فرزندِ علمی بھی موجود تھے، انہوں نے تجویز پیش کی "مدرسہ بیت العلوم نام رکھو جی!" اور یوں اتفاق رائے سے یہی نام طے پا گیا۔ ام المدارس مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں مہاراشٹر کے فرزندِ علمی کی اپنے مادرِ علمی سے یہ محبت کہ اس کا ہمنام معروف ادارہ کرناٹک کے شہر؛ سندگی میں وجود پاگیا۔

_____________________
 
مدرسے کی قابلِ تقلید بات : 

      اس مدرسے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مدرسے کی مسجد میں امامِ مسجد، استاذِ مدرسہ مسنون سورتوں کی قرأت اور بالتجوید تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرتے ہیں ساتھ ہی نماز اعتدال و تعدیل کا خیال رکھتے ہوئے سنت کے مطابق ادا کی جاتی ہے، اس بات کا بہت احساس ہوا اور دل کو خوشی ہوتی رہی۔ مدرسہ میں ہماری آمد بدھ کی رات ہوئی، شبِ جمعہ کی فجر میں مسنون قرأت "سورہ الم سجدہ اور سورہ الإنسان" خوش الحانی سے پڑھی گئی۔ یہ بات کم دیکھنے میں آتی ہے، حالانکہ مسنون نماز کی اہمیت کی بناء پر اس کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے۔


     یہ حقیقت ہے کہ مدارس و مکاتب اسلام کے قلعے ہیں اور یہاں کے طلبہ اسلام کے سپاہی ہیں، سپاہی کی مشق و تربیت میں کوتاہی اُسے میدان جنگ میں ناکام کرتی ہے اور میدان جنگ کی ناکامی و کامیابی قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، اسی طرح اہلِ مدارس کی تعلیم و تربیت میں کمی کوتاہی فارغینِ مدارس کو میدانِ عمل میں کھوٹا ثابت کرتی ہے، جس سے اسلام کے قلعے کمزور ثابت ہوتے ہیں اور مسلم قوم کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
      ملک کے سپاہی شہر پناہ کی دیوار یا سرحد پر ہوتے ہیں، پورے مسلح اور ہر صورت حال کے لیے مستعد ہوتے ہیں اس لیے کہ انہیں اسی غرض سے تیار کیا جاتا ہے، مشق و تربیت کے کڑے مرحلے اور ڈسپلن سے گزارا جاتا ہے۔
       دینی قلعے؛ مدارس دینیہ کے ان اسلامی سپاہیوں کے لیے ڈسپلن اور اصول و ضوابط؛ نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہے، سنت نبوی ﷺ ہے۔ اور نماز کا مقام دین میں سب سے اونچا ہے اور سب سے مقدم، یوم الحساب کو حساب کا آغاز اسی سے ہونا اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے؛ ... وعمودُهُ الصَّلاةُ : دین کا ستون نماز ہے۔"


اصلاح و تربیت میں قابلِ توجہ بات :
         اسی لیے اصلاح و تربیت کے باب میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلی توجہ اسی "سنت کے مطابق نماز" کی طرف ہونی چاہیے، نماز سنت کے مطابق ہو اور اس میں پڑھی جانے والی قرأت مسنون مقدار پر ہو یعنی قصار، اوساط اور طوال مفصل کا لحاظ رکھ کر ہو، ساتھ ہی ہر رکن کے اعتدال و تعدیل کا خیال ہو۔ فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سننِ رواتب کا بھی خوب اہتمام کروایا جائے اور ہو سکے تو شبِ جمعہ قبلِ فجر کچھ وقت قیام اللیل کروایا جائے۔ یہ چیز دین کے سپاہیوں کو اسلام کا محافظ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ 
      نماز درست ہوگی تو اخلاق و کردار درست ہوں گے، تقوی و طہارت حاصل ہوگی۔ "ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر : نماز فحش کاموں اور منکرات سے روکتی ہے۔" روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے، مگر جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " انه سينهاه ما يقول : اس کا یہ عمل عنقریب اسے اس (چوری) سے روک دے گا۔"

نماز کی مسنون قرأت کا انوکھا فائدہ :
     نمازوں میں بطور خاص جہری نمازوں میں مسنون حصۂ قرآن کی قرأت؛ کتابِ الٰہی سے رابطہ مضبوط کرتی ہے۔ سورہ حجرات سے آخر تک قرآن مجید کی سورتیں مفصل کہلاتی ہیں، اس کے تین حصّے ہیں۔ فجر و ظہر میں "سورہ حجرات سے سورہ بروج" تک طوال مفصل، عصر و عشاء میں " سورہ طارق سے سورہ لم یکن" تک اوساط مفصل اور مغرب میں "سورہ زلزال سے سورہ ناس" تک قصار مفصل، ان سورتوں میں جہاں ضروری معاشرتی احکام کا ذکر ہے وہیں بیشتر سورتیں مکی ہونے کی وجہ سے ایمان و عقیدے کو مضبوط بنانے اور پختہ کرنے والی ہیں۔ 
      نمازوں میں سنن و آداب کی رعایت خشوع و خضوع پیدا کرکے نفس کا تزکیہ کرتی ہے اور انہیں نمازوں میں مسنون حصۂ قرأت کے ذریعے کتابِ الٰہی سے زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے۔

تدبر کی بات (قرآن کی روشنی میں) :
      اصلاح و تربیت کا آغاز و ترتیب کیا ہو؟ اور مصلحین کو نتیجہ کب حاصل ہوتا ہے؟ آیت کریمہ اس باب میں بہترین رہنمائی کرتی ہے۔
والذین یمسکون بالکتاب وأقاموا الصلوۃ إنا لا نضیع اجر المصلحين: 
ترجمہ: اور جو لوگ کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم ایسے اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ (الأعراف: 170)

     نتیجہ خیز اصلاح کیلئے؛ امت کی اصلاح کرنے والوں کے لیے آیت کریمہ میں بہترین رہنمائی موجود ہے، اصلاح کے دو اسباب 1) تمسک بالکتاب؛ کتابِ الہی کو مضبوطی سے تھامنا اور 2) اقامتِ نماز __ یہ اختیار کرنے پر اصلاح کرنے والوں کی کوشش ضائع نہیں کی جاتی، دنیا میں اس کا نتیجہ و اثر ظاہر ہوگا اور آخرت میں اس کا ثواب و اجر حاصل ہوگا۔ یہی مصلحینِ ملت کی کامیابی کا زینہ ہے اور قوم کی اصلاح کا مؤثر وسیلہ ہے۔


جاری _________

محاضرات اور نشستیں 
عمومی تاثر 
لائق و فائق فرزند مولانا عبدالحق ندوی صاحب 
_____________________ 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے