سفرِ سندگی؛ کیا دیکھا، کیا سیکھا؟ ____ چوتھی قسط



ٹرین کے تازہ تجربات :

تلخ تجربہ ___
      گلبرگہ سے واپسی میں تمام 14 افراد دو گروپ میں تقسیم ہو گئے، ممبئی جانے والوں کے ساتھ مہتمم صاحب ہو گئے تاکہ وہاں انہیں بحفاظت پہنچائیں۔ منماڑ جانے والے ہم آٹھ ساتھی تھے، ٹرین میں بھی ہمیں تین مختلف کمپارٹمنٹ (ٹرین کے ڈبوں) میں تقسیم ہونا پڑا۔ دعوتی نقطہ نظر سے ہم نے اپنے غیر مسلم مسافر ساتھیوں سے باتیں کرنے اور اچھا ماحول بنائے رکھنے کی کوشش کی، کھانے کے وقت بسکٹ اور پھل کمپارٹمنٹ کے ساتھیوں کو تقسیم کئے جس سے ان کی اجنبیت کم ہوئی، انسیت پیدا ہوئی، آہستہ آہستہ بات چیت ہونے لگی اور ماحول بہت دوستانہ ہوگیا۔ ادھر مختلف کمپارٹمنٹ میں بکھرے اپنے ساتھیوں کی خیر خبر لینے کے لیے آتے جاتے رہے، مفتی محمد کاظم صاحب کے کمپارٹمنٹ میں ایک غیر مسلم؛ مولوی اور پنڈت بیزار قسم کا ملا، اپنی طنزیہ باتوں سے کافی پریشان کرتا رہا، مختلف اوٹ پٹانگ باتیں اور اسلام پر اعتراض کرتا رہا لیکن بفضل اللہ ہم نے، ہمارے ساتھیوں نے بڑی حکمت اور نرمی سے باتیں کی، بتوفيق اللہ بات بگڑنے نہیں دی۔
وإذا مروا باللغو مروا كراما.
وإذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما.


خوش گوار تجربہ ___
     ٹرین کے سفر میں غیر مسلموں میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ٹرینوں کے درجے ہیں جنرل، سیٹر، سلیپرر، اے سی کوچ وغیرہ اسی طرح ان میں بیٹھنے والے لوگ بھی بیشتر اسی سطح کے ہوتے ہیں، بات کو سمجھنے، قبول کرنے والے بہت سے اچھے ذہن کے افراد بھی ہوتے ہیں، ابھی ماضی قریب میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کا سفر مہتمم صاحب کے ساتھ ہوا تھا، اے سی کوچ میں تھا، اس میں ایک شخص کم عمر لیکن اعلی تعلیم یافتہ انگریزی اسپیکر اور ٹرینر آف د ٹیچرز تھا، مولانا سے انگریزی میں گفتگو کیا، آپ نے موقع کی مناسبت سے ملک کے حالات پر پیام انسانیت کے دائرے میں انگریزی زبان ہی میں گفتگو کی جس سے وہ کافی متاثر ہوا، اس سے زمین ہموار ہوگئی، سفر ختم ہونے کے قریب کمپارٹمنٹ کے سارے لوگ اپنا سامان تیار کرکے پرسکون بیٹھ گئے، حضرت مولانا وضو بنانے کے لیے گئے اس درمیان ان سے دعوتی نقطۂ نظر سے کچھ بات کرنے کا موقع مل گیا۔ 
      راقم نے کہا کہ ہمارا سفر ختم ہوگیا بس اب اترنا ہے بالکل اسی طرح ایک وقت آئے گا جب زندگی کا یہ سفر بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ سنتے ہی سارے لوگ گوش بر آواز ہوگئے۔ ___ آگے کہا ؛ آج ہم ایک منزل پر اتر رہے ہیں ایسے ہی مرنے کے بعد ہم ختم نہیں ہوں گے بلکہ ایک الگ قسم کی روح کی زندگی، آتما کا جیون شروع ہوگا اور ہم دوسری دنیا کی طرف اتر جائیں گے۔ ___ یہاں اے سی کوچ میں ہم لوگوں کو جنرل ڈبے کی بہ نسبت بہت اچھی فیسی لیٹیز ، سہولتیں ملی ہیں اس لیے کہ ہم نے اچھے خاصے پیسے دیئے ہیں ایسے ہی اُس دنیا میں اترنے کے بعد اچھے عمل کی کرنسی لے کر جائیں گے تو اِس زندگی سے زیادہ اچھی زندگی، فیسی لیٹیز اور سہولتیں اُس دنیا میں ملیں گی جسے سورگ اور جنت کہا گیا ہے۔ اِس پر اُس انگریزی داں نے کہا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کو میں نے جاننے کی بہت کوششں کی لیکن اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ ہم نے کہا کہ آپ نے دھارمک کتابیں بھی پڑھی، کیا آپ نے قرآن بھی پڑھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پڑھا ہے لیکن بس یوں ہی سا، ہم نے کہا کہ آپ نے گہرائی سے پڑھا ہوتا تو آپ کو علم ہوتا کہ قرآن موجودہ زندگی کی بھی رہنمائی کرتا ہے اور مرنے کے بعد کیا ہوگا اس کی بھی پوری تفصیل بتاتا ہے۔ اگر وقت ہوتا، آگے اور چلنا ہوتا تو قرآن کریم کی آیات کوٹ کرکے آپ کے تمام سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتا، جس سے محسوس ہوتا کہ قرآن؛ مرنے کے بعد دوسری زندگی، جنت اور جہنم، سورگ اور نرک میں جانے کی ساری باتیں تفصیل سے بتاتا ہے۔ آپ قرآن کو اچھی سے پڑھیے، گہرائی سے مطالعہ کیجیے۔
      بھرے کمپارٹمنٹ میں سارے افراد نے بڑے تجسس اور توجہ سے ان باتوں کو سنا جس سے محسوس ہوا کہ باتوں کا اثر ہوا ہے۔ ٹرین میں ایسے اچھے، سمجھدار لوگوں سے بات کرنے کا موقع کھونا نہیں چاہیے اور رجوع الی اللہ ہو کر، دعوتی فرض محسوس کرکے کچھ نہ کچھ اچھی بات پیش کر دینا چاہیے۔ موجودہ حالات میں مجمعوں میں دعوت دینا سازگار نہیں رہا، ایسی ہی انفرادی کوششیں ہونا چاہیے، جس طرح منگولوں اور تاتاریوں کے عہدِ حکومت میں ہمارے اسلاف نے انفرادی دعوت کی حکمتِ عملی اپنائی تھی۔ 


مولویوں کی ناز برداری :
      مولَوی میں "ی" نسبت کی لگی ہوئی ہے یعنی مولیٰ والا۔ کریم مولیٰ؛ اپنے مولویوں کی بڑی خاطر مدارات کرتا ہے اور سفر میں تو بڑے ناز اٹھاتا ہے۔ سفر میں سب سے بڑی فکر کی بات اور سب سے زیادہ خرچ کی چیز "قیام اور طعام یعنی کھانا اور ٹھہرنا" ہوتا ہے، اس سفرِ سندگی میں کریم مولیٰ کی طرف سے بڑی عافیت رہی اور قیام و طعام دونوں ہی توقع سے بڑھ کر راحت بخش و صحت بخش رہے اور بڑے اعزاز واکرام سے مہیا ہوتے رہے۔ سچ ہے؛ حسبنا اللہ ونعم الوکیل، نعم المولیٰ ونعم النصیر، اللہ بہترین کارساز ہے، بہترین نگہبان و بہترین مددگار ہے، وہ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے ہر اعتبار سے؛ ألیس اللہ بکاف عبدہ.

    آغاز سفر میں شام پانچ بجے منماڑ ٹرین پر بیٹھے اور رات نو بجے کلیان پہنچے یہاں شریکِ سفر محمد صدیق (خصوصی ثانی) کے والد حافظ محمد اسلم صاحب (امام مسجد زبیدہ، ممرا، شملہ پارک) نے شیریں دہنی کے لیے بہترین بڑا سا کیک پیش کیا جس پر خوبصورتی سے "جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں " کا نام لکھا ہوا تھا اور عشاء پڑھتے ہی چکن بریانی سے ضیافت کی۔ 


      صبح بیجاپور پہنچتے ہی مدرسہ تعلیم القرآن کے ناظم قاری محمد صدیق صاحب کے دسترخوان پر پُر تکلف ناشتہ اور ظہرانہ ہوا۔ عشاء کے بعد ایک گھنٹے میں مدرسہ بیت العلوم سندگی پہنچے، وہاں اہلِ مدرسہ کا انواع و اقسام کے کھانوں پر مشتمل سجا ہوا دسترخوان ہمارا منتظر تھا، چار دن مدرسۂ سندگی کے آرام دہ قیامگاہ میں طعام لذیذ بھی اور صحت بخش بھی رہا۔ آخری دن گل برگہ پہنچے، یہاں رفقاءِ سفر کا کسی کی مہمانی قبول نہ کرنے اور مقامی کھانوں کا ذائقہ چکھنے کا اصرار ہوا، چنانچہ وہاں کے کھانے ہوٹل سے لے آئے۔ آخری کھانا عشائیہ گلبرگہ کی کفایت والی "تاج ہوٹل" میں ہوا اور آخری قیام کے لیے اسٹیشن والی مسجد میں نظم ہو گیا ہے۔
      اس طرح کریم مولیٰ نے قیام و طعام کی تمام دشواریوں سے مولویوں کے اس گروپ کو بچایا اور حافظ محمد اسلم، مفتی عبدالحق ندوی، قاری محمد صدیق اشاعتی، مولانا محمد عثمان ندوی وغیرہ؛ مولویوں ہی کے ذریعے بڑے لطف و مہربانی سے کھلایا پلایا، پڑھایا لکھایا، گھمایا پھرایا اور واپس اپنے مقام پر بعافیت لے آیا۔ فالحمدللہ رب العالمین

تدبر کی بات :
      مولائے کریم نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا ؛ اللہ لطیف بعبادہ یرزق من یشاء وھو القوی العزیز. (الشورى: 19) : اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے، جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے، وہ بڑی طاقت، بڑے غلبے والا ہے۔ ___ اللہ نے اس آیت کریمہ میں رزقِ عباد کو اپنی صفت "لطیف" کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا، اس طرح یہ بتا دیا کہ وہ بندوں کو بڑے لطف و مہربانی سے رزق دیتا ہے، اور جسے دیتا ہے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا وہ طاقتور اور غلبے والا ہے۔ __ کریم مولیٰ عام بندوں کے ساتھ، اپنے خاص مولوی بندوں کو ہر قسم کا رزقِ ظاہر و باطن بڑے ہی لطف، بڑی ہی مہر و محبت سے مہیا کرتے ہیں۔

      دعا ہے مولائے کریم ان تمام میزبان و مہمان مولویوں کو اپنی ولایتِ خاصہ عطا فرمائے اور کسی مولیٰ والے سے جوڑ کر مولائے روم کی طرح مولائے ہند بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد
_____________________ 

جاری _________

سفر کی اصل منزل
مدرسہ بیت العلوم سندگی، کرناٹک
مدرسے کے ساتھ انگلش میڈیم اسکول
مدرسے کے ناظم
مولانا محمد ایوب ندوی صاحب (بھٹکل)
مدرسے کی خاص بات
مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں، مہاراشٹر


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے