گل برگہ کی سیر :
مدرسہ سندگی کا چار روزہ تربیتی ورکشاپ اپنے شیڈول کے اعتبار سے تھکا دینے والا تھا لیکن انتہائی مفید ہونے کی وجہ سے تھکن کا احساس وہاں رہتے نہیں ہوا، فیڈ بیک و تاثرات کی آخری نشست کے بعد یہ احساس جاگا۔ لیکن اس تھکن کا علاج مہتمم صاحب نے پہلے ہی کر رکھا تھا یعنی گلبرگہ کے تاریخی اور تفریحی مقامات کی سیر و تفریح، چنانچہ پوری دلچسپی و شوق کے ساتھ فجر پڑھ کر صبح سویرے ہی گل برگہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہمارے میزبان مکرم مفتی عبدالحق ندوی صاحب نے پہلے ہی ہمارے سفر کی ترتیب بنا دی تھی اور گلبرگہ کے ایک مدرسے ضیاء العلوم میں ٹھہرنے کا نظم فرما دیا تھا، چنانچہ ہم لوگ مدرسہ ضیاء العلوم گلبرگہ پہنچے، یہاں ناشتے سے فارغ ہو کر تفریح کے لیے نکل پڑے۔
مدرسے کے مہتمم مفتی عثمان غنی ندوی صاحب علیل تھے، اس کے باوجود ملاقات کیلئے تشریف لائے، ساتھ میں ناشتہ کئے، اسی وقت مولانا محمد فیاض ندوی گلبرگہ کے مقامی ساتھی بھی تشریف فرما ہوئے، گلبرگہ کی اس سیر میں رہبری کیلئے مولانا عبدالحق ندوی صاحب نے انہیں متعین فرما دیا تھا، پورا دن یہ ہمارے ساتھ رہے۔ جزاہما اللہ خیرا مدرسے میں چند ہی گھنٹے ہمارا قیام رہا۔
گلبرگہ کی مختصر تاریخ :
گلبرگہ؛ ریاست کرناٹک کا ایک تاریخی شہر ہے، فارسی میں گل کے معنی پھول کے ہیں اوربرگہ کہتے ہیں باغ کو، گلبرگہ یعنی پھولوں کا باغ __ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پرانے دنوں میں گلبرگہ کا نام " کالا بُرگی " بھی تھا جسے حالیہ دنوں میں ایک حکومتی فرمان کے ذریعہ گلبرگہ کا پرانا نام کالا برگی ہی رکھ دیا گیا ہے۔
تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی سلطنت کمزورہو جاتی ہے جس کے باعث چھوٹی چھوٹی خود مختار اور آزاد ریاستیں وجودمیں آئیں۔ ان میں بہمنی سلطنت بھی شامل رہی، 1347 عیسوی میں حسن گنگو نے بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں لایا، بہمنی سلطنت جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں پہلی آزاد اسلامی مملکت تھی، اسے قرون وسطی کی عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے، حسن گنگو نے گلبرگہ کو دار الحکومت بنایا، دیگرسلطنتوں کی طرح بہمنی سلطنت کا بھی ایک دن خاتمہ ہونا تھا، 1428 عیسوی میں بہمنی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور اس سلطنت کے کھنڈر سے پانچ ریاستیں بیدر۔ برار۔ بیجاپور۔ احمدنگر اور گولکنڈہ ہندوستان کے نقشے پر ابھر آئیں۔
گل برگہ کے تاریخی وتفریحی مقامات :
یہاں کے تفریحی مقامات 1) خواجہ بندہ نواز کی مزار جسے درگاہ شریف کہا جاتا ہے۔ 2) ہفت گنبد 3) سائنس سٹی 4) گلبرگہ کا قلعہ 5) داؤدی مینار 6) شاہی جمعہ مسجد 7) فن ورلڈ (Fun World)
چند اہم مقامات :
____ گلبرگہ کا قلعہ : گل برگہ بہمنی سلطنت کا دارالخلافہ بھی تھا اس لیے یہ قلعہ قابل دید ہے، یہاں پر اندلس کے قرطبہ کی طرز پر ایک مسجد ہے؛ بڑی وسیع و عریض، دیدہ زیب اور فنِ تعمیر کی شاہکار
____ سائنس ورلڈ : سائنس کی دنیا مؤمنانہ نگاہ سے دیکھی جائے تو ایمان و یقین میں اضافے کا ذریعہ ہے، اللہ کی عظمت و بڑائی اور اس کے انتہائی "علیم و حکیم" ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے، ساتھ ہی ہم انسانوں کی بے بسی و علمی کم مائیگی کا دل سے اقرار و عتراف ہونے لگتا ہے، قرآن سچ کہتا ہے؛ وما أوتیتم من العلم إلا قلیلا : تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ __ انسان اپنے "العلیم" خالق سے ہر دن؛ اک نیا علم پارہا ہے، اس طرح ہر روز نیا علم پاکر اِسے اپنی کم علمی کا علم ہوتا جارہا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے مزاح کے انداز میں کہا ہے؛
مِنَ العلمِ قلیلاً یاد رکھنا بعد اُوتِیتُم
نہ سمجھوگے تو کھاؤگے اک دن جُوتی تم
تدبر کی بات (قرآن کی روشنی میں) :
انسان کو علم؛ تھوڑا سا ہی دیا گیا ہے، خود چاہے جتنی تحقیق و ریسرچ کرلے، اللہ کی مرضی کے بغیر؛ اللہ سے علم نہیں لے سکتا، جتنا علم اللہ چاہتا ہے اُتنا ہی اُسے عطا کرتا ہے، اس نے اپنی حکمت سے جس زمانے کے لیے جو علم، جتنا علم عطا کرنا طے کیا ہے، اُتنا ہی ملے گا، اُس سے زیادہ نہیں، اور اُس سے پہلے نہیں، یہ سائنسی اكتشافات و دریافتیں ہزار سال قبل بھی ہوسکتی تھیں لیکن اللہ "العلیم الحکیم" نے اپنی حکمت سے اِسے اِس زمانے کے لیے خاص کیا۔ اللہ پاک نے "آیت الکرسی" میں بیان فرمایا؛
"ولا یحیطون بشیئ من علمہ إلا بما شاء وسع کرسیہ السماوات والأرض .... : اور لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لاسکتے سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے، اس کا اقتدار و کرسی سارے آسمان و زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ (البقرۃ: 255)
سائنس سٹی یا سائنس ورلڈ اس نقطۂ نظر سے بڑی دلچسپی کا سامان ہے، گلبرگہ کے "سائنس ورلڈ" میں دیر تک سائنسی باتوں کو سمجھ کر اسی احساس و اعتراف کو جگایا، ابھی چند ہفتوں پہلے لکھنؤ جاکر کچھ دن قیام کا موقع ملا، وہاں بھی دوسرے تفریحی مقام دیکھنے سے رہ گئے لیکن دو دن؛ کم و بیش تین تین گھنٹے؛ جامعہ کے زیرِ تعلیم طلبہ کو لیکر لکھنؤ کی "سائنس سٹی" کی سیر کی اور خوب علمی حظ اٹھایا۔
انوکھا تفریحی کھیل :
(حقیقت کی نقل _ Virtual Reality)
گلبرگہ کا آخری تفریحی مقام تھا فن ورلڈ، اس "Fun World؛ تفریحی دنیا" میں بچوں اور بڑوں کیلئے پچاسوں قسم کے "Fun game؛ تفریحی کھیل" موجود تھے، طلبہ نے بھی بہت سے کھیلوں میں حصہ لیا۔ ان میں قابلِ ذکر چیز "ورچوئل ریئلٹی" کی تفریح تھی۔ "ورچوئل ریئلٹی" کمپیوٹر کی زبان میں ایسی چیزیں جو حقیقی وجود نہ رکھے لیکن سافٹ وئیر ان کے موجود ہونے کا تأثر دے۔ یہ انوکھی تفریح ہے، خاص قسم کی کرسی میں نصب اسکرین پر چلنے والی ویڈیوز مخصوص چشمے (headset) کے ذریعے دکھائی جاتی ہے، اس میں حقیقت سے بہت ملتا جلتا تأثر پیدا ہوتا ہے، کمپیوٹر سے تیار کردہ ماحول جس میں مناظر اور اشیاء حقیقی دکھائی دیتی ہیں، اِس میں انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُس ڈیجیٹل دنیا میں جسمانی طور پر موجود ہے۔
بہت سے طلبہ نے اس تفریح سے لطف اندوز ہونے کا تجربہ کیا، کھانے کی میز پر ایک طالب علم نے اس سے متعلق مہتمم صاحب سے کہا کہ __ بالکل حقیقی لگ رہا تھا، حقیقت میں کسی خوفناک چیز کے دیکھنے، انتہائی اونچائی پر جانے اور اچانک گر پڑنے کا ڈر دل میں پیدا ہورہا تھا، بہت گھبراہٹ ہورہی تھی۔ اس پر مہتمم صاحب نے کہا کہ "اس پروگرام میں ذہن کو اس یقین پر جمانا ہوتا ہے کہ یہ حقیقی نہیں مصنوعی ہے۔" ___ واقعی باہر کی حقیقی دنیا کا ادراک و احساس جتنا طاقتور ہوگا اتنا ہی اسکرین کے اندر کی مصنوعی دنیا کے دھوکے اور وہم کا مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔ اُسی وقت راقم الحروف کے ذہن میں بات آئی کہ ایک ایمان والے کے لیے جدید ٹیکنالوجی، جدید ایجادات ایمان میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں اور دجالی فتنوں کو سمجھنا بھی آسان کر رہی ہیں۔
دجال غیر حقیقی دنیا لیکر ساتھ چلے گا، مصنوعی جنت و جہنم اس کے قبضے میں ہوگی، جسے چاہے گا ان میں ڈالے گا۔ اس کا دجل و فریب انتہا کو پہنچا ہوگا، اُس وقت اِس متاعِ غرور کے دجال اور اُس کے دھوکے سے وہی ایمان والا بچ سکے گا جو اس یقین کو مضبوط رکھے گا کہ یہ دجالی دنیا مصنوعی اور غیر حقیقی ہے، ایسا اس وقت ہوگا جب اُس مؤمن کا اِس سے باہر کی حقیقی دنیا دارِ آخرت؛ دارِ بقاء پر ایمان و یقین قوی سے قوی تر ہوگا۔
فن ورلڈ کے مالک :
اس "فن ورلڈ" کے مالک ماشاء اللہ ایک متشرع مسلمان حاجی محمد عارف علی صاحب منیار ہیں، ایک ماہر انجینئر اور گلبرگہ کی ایک کامیاب بزنس فرم؛ ایشین بلڈرس کے متحرک رکن رکین ہیں۔ دینی مزاج کے ساتھ اعلی سوچ و فکر اور تعلیمی میدان میں قومِ مسلم کے لئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ پنہاں ہے، عصر بعد سفر کے رہبر مولانا محمد فیاض احمد ندوی نے یہاں پہنچتے ہی ان سے ملاقات کروائی جو کافی طویل رہی، باتوں باتوں میں اپنے بلند عزائم کا اظہار کیا۔ طلبۂ جامعہ بھی ان کی عنایتوں سے مستفید ہوئے، قریب تین ہزار کا ٹکٹ طلبہ کیلئے ہدیۃً پیش کیا، جسے لیکر طلبہ نے "تفریح کی دنیا" میں فاتحانہ قدم رکھا۔ جزاہ اللہ خیرا
گلبرگہ کی سیر کا حاصل :
گلبرگہ کی سیر میں بھی حضرت مولانا جمال عارف صاحب کی رہبری رہی اس درمیان آپ نے بہت سی اہم باتوں سے آگاہ کیا، آپ نے کہا کہ __ بارہا یہ خیال آتا ہے جس کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ یہ تاریخی محلات، قلعے جن کے آج فقط آثار رہ گئے ہیں ان کا کیا فائدہ؟ اس کے بجائے مسلم حکمراں کچھ دعوتِ دین کا کام کئے ہوتے، کچھ علمی خدمات انجام دیتے، یونیورسٹیاں بنائی ہوتیں وغیرہ وغیرہ، یہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا کیا مقصد؟ کیا فائدہ؟ ___ لیکن آج جو ماحول ہے، اسلامی تاریخ کو مٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، ملک سے مسلمانوں کو ناپید کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں، اس میں آج یہ بچی کچھی عمارتیں، یہ آثار؛ مسلمانوں کے وجود کی گواہی دے رہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے لیے مسلمانوں کو مٹانا، اُن کی تاریخ کو محو کرنا اتنا آسان نہیں ہے، آج اس کا یہ فائدہ سمجھ میں آتا ہے۔
گلبرگہ کی تاج ہوٹل پر کھانا کھاکر آخر میں مارکیٹ سے خریداری کرتے ہوئے اسٹیشن والی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کئے وہیں رات کا قیام کرکے فجر سے پہلے ہی منماڑ کی ٹرین پر جا بیٹھے۔
جاری ____________
ٹرین کے تازہ تجربات
تلخ تجربہ ___
خوش گوار تجربہ ___
_____________________
0 تبصرے