مقصدِ سفر :
مولانا عبدالحق ندوی صاحب نے کم و بیش 10 برسوں کی محنت سے اسپوکن انگریزی اور عربی زبانوں میں مہارت پیدا کی، اس کے بعد آپ نے؛ جس فطری طریقے سے زبان کو سیکھا، بڑوں کے مشوروں سے ان دونوں زبانوں کے سیکھنے سکھانے کا آسان طریقہ اور کم مدتی کورس مرتب کیا، مولانا کے انہی تجربات سے مستفید ہونے، ان کے مدرسے بیت العلوم سندگی، بیجاپور، کرناٹک آئے۔
اس کورس کی ٹریننگ دیتے ہوئے مولانا نے کامیاب اور مؤثر تجربات کئے ہیں، اس راستے میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں، مدارس دینیہ کے طلبہ کو عربی و انگریزی زبانوں میں ماہر بنا رہے ہیں۔
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں سے 26/ ستمبر 2023ء بروز منگل ششماہی امتحان کا آخری پیپر ختم ہوتے ہی نکلے اور 27 ستمبر بروز بدھ کی صبح بیجاپور پہنچے، اسٹیشن سے اتر کر بیجاپور کے ایک مدرسے اشاعت العلوم اکلکوا کی شاخ جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن پہنچ کر ناشتہ کیے۔
مدرسہ تعلیم القرآن کے ناظم :
مدرسے کے ناظم قاری محمد صدیق عباس مرزا اشاعتی، گاؤں ہتھوڑا، سورت گجرات کے رہنے والے ہیں اور مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں میں 2004ء میں ایک سال اصول الشاسی، تفسیر جلالین اور ابو داؤد شریف کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیا، 2005 میں بیجاپور تشریف لائے اور مولانا وستانوی صاحب کی نگرانی میں مدرسے کی بنیاد رکھی، یہ ایک پودا تھا آپ نے مالی بن کر تناور درخت کی شکل دے دی، آج بھی آپ اسی تندہی سے اس شاخ دار گھنیرے درخت کی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے یہاں ہماری خوب اچھی ضیافت کی، دوپہر کا کھانا بھی کھلایا، فجزاہ اللہ خیرا
مدرسے میں کچھ دلچسپ باتیں :
بیجا پور کے اس مدرسے میں قیام سے متعلق بات؛ میزبان مولانا عبدالحق ندوی صاحب نے پہلے ہی سے کرلی تھی، مدرسے کا مہمان خانہ ہماری آمد سے قبل ہی تیار کردیا گیا۔
اشاعت القرآن کے مولانا عبدالصمد :
یہ مدرسہ؛ اگلے سفر کا ایک پڑاؤ تھا، یہاں طبیعت ایسی خوش ہوئی کہ سفر کی ساری تکان اتر گئی، وہ اس طرح کہ یہاں کے استاد مولانا عبدالحق صاحب اشاعتی، مطبخ کے ناظم اور اکل کوا کے فارغ ہیں، مولانا عبدالصمد ناظمِ مطبخ اشاعت العلوم اکلکوا کے خاص تربیت یافتہ ہیں، ان سے خصوصی تعلق کی بناء پر ان کی عادات و اطوار، اقوال و طرزِ ادا اور چال ڈھال کی خوب نقل کرتے ہیں، انہوں نے اس کا مظاہرہ کھانے کے وقت کیا تو کھانے کا مزہ دوبالا ہو گیا، مجلسِ طعام قہقہہ زار ہوگئی۔ یہ ایسا انوکھا دسترخوان تھا کہ جس پر لذت کام و دہن کے ساتھ فرحتِ قلب بھی مہیا تھی، اس دسترخوان پر لذت اور فرحت دونوں اکٹھا ہوگئے، پیٹ کھانوں سے؛ تو دل خوشیوں سے بھر گیا، یاد کرکر کے مسکراہٹ دیر تک لبوں پر کھیلتی رہی۔
مالیگاؤں کا تذکرہ بیجاپور میں :
ناشتے اور کھانے کے دسترخوان پر ناظمِ مدرسہ قاری محمد صدیق اشاعتی صاحب نے مساجد ومیناروں کے شہر مالیگاؤں کے قیام کا ذکر چھیڑ دیا، وطن کا تذکرہ؛ وطن سے باہر ہو تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، کھانے کی رغبت بڑھ گئی، یوں بھی کھانا بڑا پرتکلف اور بڑے اہتمام سے تیار کیا گیا تھا جو ناظم مدرسہ حضرت قاری صاحب کے کشادہ قلب وکشادہ دست ہونے کا غماز تھا۔
دوران گفتگو مالیگاؤں کی خاص بات جو انہوں نے ذکر کی وہ یہ کہ یہاں غریب مسافر آدمی بھی کم پیسوں میں اچھے کھانے پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، آپ نے 2004 یعنی 18 _ 19 سال پہلے کی بات کہی، تب سے اب تک حضرت قاری صاحب کا مالیگاؤں آنا نہیں ہوا۔ راقم الحروف مالیگاؤں کے رہائشی ہونے کی حیثیت سے کہتا ہے کہ واقعی یہ بات ہے اور بہت اچھی بات ہے لیکن افسوس کہ علم و عبادت کے رمز، مدارس و میناروں کے شہر میں علم کے سوتے و سرچشمے خشک ہورہے ہیں یعنی لائبریریاں، کتب خانوں کے بجائے کھانے پینے کی جگہیں زیادہ آباد ہورہی ہیں یعنی ہوٹلیں زیادہ کھل رہی اور چل رہی ہیں، نتیجتاً پیٹ بڑھ رہے ہیں اور دماغ سکڑ رہے ہیں، توند نکل رہی ہیں اور سوچ و فکر چھوٹی ہو رہی ہے، اعلی دماغی و ستھرا ذوق گھٹتا جارہا ہے، عوام الناس کا اخلاق پست ہوتا جا رہا ہے، اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنے بچپن میں شہر کی جن عوامی لائبریریوں کو آباد دیکھا تھا اب وہ ویران نظر آتی ہیں، جو لائبریریاں پابندئ وقت سے کھلتی تھیں اب ان پر تالے نظر آتے ہیں جبکہ علم و مطالعہ کسی بھی قوم کی فکری و عملی بلندی کا زینہ ہے اور زوال کا آغاز اسی فکر و عمل کے انحطاط سے شروع ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا؛
قوتِ فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
پہلے عوام ہی میں بڑی تعداد میں علمی وادبی ذوق رکھنے والی شخصیتیں ہوا کرتی تھی، سادہ لباس میں اعلی سوچ و فکر والے ہوا کرتے تھے، اب ظاہری خوبصورتی، لباس وپوشاک؛ خوب سے خوب تر ہے اور سلوک و برتاؤ سے ذہنی سطحیت و بد سلیقگی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
چھلکے سجے ہوئے ہیں
پھلوں کی دکان پر
صحابہؓ کے اوصاف میں آتا ہے؛ "أفضل ھذہ الأمۃ أبرھا قلوبا ، أعمقھا علما و أقلھا تکلفا : سب سے زیادہ پاکیزہ دل، علم میں گہرے، تکلف و تصنع اور بناوٹی اخلاق سے پرے"__ کیا چیز تھی ان کے اوصاف کو ایسا بنانے والی؟ یہی کتاب یعنی کتاب الٰہی __ صحابہؓ؛ رات میں دن کے آغاز سے قبل ہی کتابِ الٰہی سے جڑتے تھے اور پورا دن اور ایک تہائی رات تک کتاب الہی سے وابستہ رہتے تھے، سات دنوں میں سات منزلیں پڑھ کر کتابِ الہی کا ایک دور مکمل کر لیتے تھے، ایسے مثالی اخلاق؛ کتاب سے جڑ کر ہی پیدا کیے جا سکتے ہیں، اس سے کتاب کی اہمیت لائبریری و مکتبوں کے قیام کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔
قاری صاحب بڑے مہمان نواز معلوم ہوئے، اپنی مہمان نوازی سے دل جیت لیے، ساتھ ہی بڑے سرگرم وفعال آدمی ہیں، اتنے بڑے مدرسے کے سارے نظام کو تنہا کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں، اساتذہ بھی کافی ملنسار اور نظامِ مدرسہ کے پابند دکھائی دیئے، طلبہ کے لیے "مدرسہ بیت العلوم سندگی" ہی کی طرح مدرسے کے ساتھ اسکول کا بھی نظم ہے، دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی فراہم کر رہے ہیں، اشاعت العلوم، اکلکوا کے رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم کی خاص فکر ہے یہ، یہ چیز یہاں کیوں نہ نظر آتی!! بیجاپور کا یہ مدرسہ اشاعت القرآن اسی مرکزی مدرسے کی شاخ اور رئیس الجامعہ کی زیر نگرانی جاری ہے، حضرت وستانوی صاحب کی عادتِ شریفہ ہے کہ مدرسے کی بنیاد جنگل میں رکھتے ہیں اور جلد ہی وہ جنگل؛ منگل کا سماں پیش کر دیتا ہے، یہ مدرسہ بھی آبادی سے دور تھا، اب آبادی کے بڑھنے سے شہر میں معلوم ہوتا ہے، راقم نے اشاعت العلوم اکلکوا کی شاخ جامعہ ابو ہریرہ بدنا پور میں چند سال پڑھنے کی سعادت پائی ہے، حضرت وستانوی صاحب کی خدمت میں حاضری بھی ہوئی ہے، آپ کی بلندئ فکر، امت کا غم اور مزاج و طبیعت کی نزاکت سے بھی بخوبی آگاہی ہے۔
__ مغرب کی نماز؛ جمعہ مسجد بیجاپور میں پڑھ کر عشاء بعد سندگی کے لیے روانہ ہوئے۔
بیجاپور کے تاریخی مقامات :
بدھ کا پورا دن بیجاپور کرناٹک کے تاریخی مقامات کی سیر کی اور تقریبا تمام ہی تاریخی جگہیں ؛ 1) ابراہیم روضہ، 2) ملکِ میدان توپ، 3) حیدر برج، 4) تاج باوڑی، 5) جوڑ گنبد، 6) بارہ کمان، 7) جامع مسجد، 8) گول گنبد __ جانا ہوا۔
یہ اسفار اس معنی میں بہت مفید، قیمتی اور معلومات افزاء رہے کہ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے تمام مقامات کی تاریخ جو بیشتر انگریزی میں ہوتی ہے اس سے واقف کرانے کا اہتمام کیا، اور ٹرین میں طلبہ کو ان کی مفصل تاریخ کا انفرادی اور اجتماعی مطالعہ بھی کروایا۔
بیجاپور کی مختصر تاریخ :
1347ء میں گلبرکہ کی بہمنی سلطنت نے اس علاقہ کو فتح کیا، 1518ء میں بہمنی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم ہوگئی، ان میں سے ایک بیجاپور بھی تھا جس پر عادل شاہی حکمرانوں نے 1668ء تک حکومت کی، یوسف عادل شاہ نے بیجاپور کو ایک آزاد مملکت بنایا۔ 1686ء میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے اس علاقہ کو فتح کیا، برطانوی حکمرانوں نے 1818ء میں پیشوا کو شکست دی جس کے بعد بیجاپور انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا، آزادی کے بعد یہ کرناٹک کا حصہ بن گیا۔
شہر کے تاریخی مقامات میں سب سے زیادہ دلچسپ مقام سلطان عادل شاہ کا مقبرہ گول گنبد اور ابراہیم روضہ تھے۔
گول گنبد : 1659ء میں ماہرِ فنِ تعمیر ’یاقوت‘ کے ہاتھوں بنایا گیا۔ یہ گنبد آیا صوفیہ گنبد کے بعد سب سے بڑا گنبد ہے، یہاں کوئی بھی آواز سات مرتبہ سنائی دیتی ہے، یہاں ایک سرگوشی خانہ بھی ہے، گھڑی کی آواز بھی 37 میٹر کی دوری پر سنی جا سکتی ہے۔
نئے تجربات اور طلبہ کی خوشیاں :
گول گنبد پہنچ کر طلبہ نے بڑی خوشی ظاہر کی، گول گول زینوں کی لمبی چڑھان کے بعد طویل و عریض مُدوَّر گنبد میں تھکی تھکی تیز سانسوں کی آواز بھی گونجتی ہوئی محسوس ہوئی، طلبہ نے صدائے بازگشت کے تجربے کیلئے کچھ عربی نظمیں، گنگنائی، نعت پڑھی اور قرآنی سورتیں تلاوت کی، ہر طرف سے لوٹتی، گونجتی، گشت کرتی صدا کے آگے "جدید ایکو ساؤنڈ سسٹم" بھی پھیکا معلوم ہوا، بڑا کیف محسوس ہوتا رہا، دیر تک لطف لیتے رہے۔ کچھ وقفے کے بعد مہتمم صاحب نے سارے ساتھیوں کو اس کے سائنسی رازوں سے آگاہ کیا اور کچھ نئے تجربے کروائے، بالکل آمنے سامنے قدرے طویل میز نما پتھر کی کرسیاں (Rcc Chair Bench) ہیں، اور بیچ میں گنبد کا خلا ہے، اتنے فاصلے کی ان بینچوں پر بیٹھ کر یوں باتیں ہوتی ہیں جیسے بالکل پاس، بازو میں بیٹھے ہیں۔ آواز کی لہریں مُدوَّر گنبد کی دیواروں سے ٹکراکر بالکل سیدھ میں سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے کانوں تک بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ کافی دیر تک اس تجربے سے محظوظ ہوتے رہے۔
عبرت کی بات :
ہمارے ایک رفیق سفر نے ازراہ مذاق کہا کہ " اگر قبر میں مردے سنتے ہیں تو یہ گول گنبد والا بادشاہ صبح سے شام تک سن سن کر پک جاتا ہوگا، بیچارا مرتے مرتے اپنے لیے ایک مصیبت پال لیا۔ " ___ واقعی یہ تو آوازوں سے پریشان ہوگا اور دوسرے ہفت گنبد، 12 کمانی، اور دوسرے روضے والے بادشاہ خاموشی اور ویرانی سے وحشت زدہ ہوں گے۔ گلبرگہ کے ہفت گنبد، اور اس گول گنبد والے مقبروں میں فرق یہ ہے کہ ہفت گنبد انتہائی ویران اور خاموش ہیں اور اِدھر گول گنبد میں سیاحوں کی آمد ہوتے ہی شور شروع ہوجاتا ہے، ہر وقت مختلف آوازوں کی، تالیوں کی گونج ہوتی ہے۔ ان گنبدوں والے بادشاہوں کے مقبروں، روضوں اور بےتاج بادشاہوں؛ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے اہل اللہ کے مزاروں میں واضح فرق یہ ہے کہ کوئی سیاح بھی ان بڑے بڑے گنبدوں والے بادشاہوں کے لیے ایصال ثواب نہیں کرتا، وہ تو بھلا ہو ہمارے جامعہ کے طلبہ کا، یہ پہنچ کر گونجتی آوازوں، صدائے بازگشت کے تجربہ کے لیے کچھ قرآنی آیات کچھ عربی کلام پڑھ دیئے، ورنہ شاید ہی کوئی بھولے سے ان کو کچھ پڑھ کر بخشتا ہو، اس کے برعکس اللہ والوں کی مزاروں پر خلقِ خدا کا ازدحام نظر آتا ہے، زائرین ان کے لیے کچھ نہ کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہاں گلبرگہ میں خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر بھی گئے، یہاں آ کر اس بات کا بڑا احساس جاگا، مہتمم صاحب نے بھی اس بات کو کہا۔ افسوس! ان مزاروں کے ناخلف جانشینوں نے بہت سی خرافات پیدا کر دی ہیں لیکن عبرت کے لیے یہ بات بیک نگاہ سمجھ میں آتی ہے۔
تدبر کی بات (قرآن کی روشنی میں) :
گول گنبد کی لوٹتی ہوئی آواز کا فطری نظام، سیل فون و ٹیلی ویژن کی آوازیں دوسرے تک سیٹیلائٹ، اینٹیناز اور ٹاور کے ذریعے مطلوبہ نمبروں اور جگہوں کی طرف لوٹنا، یہ نظام بتاتا ہے کہ اسی طرح تمام آوازیں لوٹتی ہیں خالقِ آواز؛ اللہ کی طرف، وہ السمیع ہے یعنی اصل سننے والا، سننے والا تو اصل اللہ ہے اور تمام سننے والی مخلوق اسی کے دیئے ہوئے کانوں سے سنتی ہیں، تمام آوازیں پہلے اللہ کی طرف لوٹتی ہیں، اس کے بعد مخلوق کے کان سنتے ہیں۔ آوازوں کے لوٹنے کا یہ نظام گلبرگہ کے "سائنس ورلڈ" میں زیادہ سمجھ میں آیا ، تصویروں اور خاکوں کی مدد سے بتایا گیا کہ موبائل فون، ٹیلی ویژن کی آوازیں، اس کی نشریات کس طرح سیٹلائٹ، اینٹیناز کی مدد سے دنیا بھر میں بیک وقت نشر ہو جاتی ہیں، ہمارے موبائل کی آواز کی لہریں پہلے اینٹیناز پہ جاتی ہیں، اس کے بعد وہاں سے ہوکر دوسرے شخص کے رابطے نمبر پر لوٹتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ آوازیں سیٹلائٹ، اینٹیناز کی طرح پہلے السمیع ذات کے پاس جاتی ہیں، وہاں سے لوٹ کر سمیع انسان کی طرف آتی ہیں اور یہ عمل غیر معمولی برق رفتاری سے ہوتا ہے، جس طرح فون کال؛ برق رفتاری سے انٹینا سے ہوکر واپس آجاتی ہے اور اس کا شعور و احساس بھی نہیں ہوتا۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے؛
الم تر أن اللہ یعلم مافی السموات وما فی الأرض ما یکون من نجوی ثلثۃ الا ھو رابعہم ولا خمسۃ الا ھو سادسھم ولا أدنی من ذلک ولا أکثر إلا ھو معھم أین ما کانوا ثم ینبئھم بما عملوا یوم القیامۃ إن اللہ بکل شیئ علیم ۞
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ اسے جانتا ہے ؟ کبھی تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا وہ نہ ہو، اور نہ پانچ آدمیوں کی کوئی سرگوشی ایسی ہوتی ہے جس میں چھٹا وہ نہ ہو، اور چاہے سرگوشی کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ، وہ جہاں بھی ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا تھا۔ بیشک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (المجادلة: 7)
ابراہیم روضہ : ابراہیم عادل شاہ دوم (1560 تا 1627) کا مقبرہ ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے مقبرے کی طرح اس کو بھی ایک ہی چٹان سے بنایا گیا ہے۔ یہ سلطان عادل شاہ اور چاند بی بی کا بیٹا، باپ کے قتل کے بعد دس سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا، نہایت منتظم اور روشن خیال فرماں رواں تھا، قابلِ ذکر بات یہ کہ اس نے فارسی کے بجائے اردو کو ملک کی دفتری زبان قرار دیا۔
مقبرے کے ہر دروازے کے چوکھٹے پر قرآنی آیات کندہ ہیں، داخلے کیلئے چھوٹے چھوٹے دروازے چاروں طرف سے بنے ہوئے ہیں، فنِ تعمیر کا شاہکار ہے لیکن جاننے والے بتاتے ہیں کہ ان قبروں کا انداز ان بادشاہوں کے اہلِ تشیع سے ہونے کا غماز ہے۔
بیجاپور کی اس سیر میں رہبری کیلئے مولانا عبدالحق ندوی صاحب کے فرستادہ حافظ توحید پورا دن ساتھ رہے۔ جزاہما اللہ خیرا
_____________________
آخری دن کی گلبرگہ کی سیر و تفریح سے متعلق بھی باتیں ذکر ہوتی چلیں، اس کے بعد ہم سفرِ سندگی کے اصل مقصد کی طرف تفصیل سے آئیں گے۔ ان شاء اللہ
جاری ______
گل برگہ کی سیر
گل برگہ کے تاریخی وتفریحی مقامات
گلبرگہ کی مختصر تاریخ
گلبرگہ کی سیر کا حاصل
0 تبصرے