✍ نعیم الرحمن ندوی
مقولہ ہے "السفر وسیلۃ الظفر ؛ سفر کامیابی کا وسیلہ ہے" لفظ ظَفَرْ کا را ساکن فا مفتوحہ سے پہلے لائیں تو بنتا ہے ظَرْف؛ یہ لفظ؛ السفر کے ساتھ مل کر واقعی بڑا ظرف والا بن گیا ہے کہ اس میں ہر قسم کی ظفر شامل ہوگئی ہے؛ مادی، روحانی، جسمانی، مالی اور علمی و دعوتی بھی۔ __ زندگی کے اس ممتاز سفر؛ سفرِ سندگی سے ظفرِ علمی و دعوتی کے حصول کا بڑا احساس ہوا، یہ زندگی کا ایسا دو راہہ معلوم ہوا جس نے زبان و بیان میں کامرانی کے آسان راستوں کی رہنمائی کی؛ نہ صرف رہنمائی کی بلکہ کچھ آگے تک انگلی پکڑ کر لے چلا اور منزل تک پہنچے ہوؤں کا مشاہدہ بھی کروایا۔
مہتممِ جامعہ طبقۂ علماء میں تعلیم و تربیت کے تئیں اپنی ایک منفرد شان رکھتے ہیں، آپ نے جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کا قیام بڑی اونچی سوچ و فکر کے ساتھ کیا اور اس کے لیے مسلسل عملی جدوجہد میں انتھک محنتوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، آپ نے درسگاہوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کے نقطۂ نظر سے ٹیچنگ کے اہم میتھڈ "طریقِ خضر و موسی علیہما السلام" [The method of Khizar and Musa (PBUH)] کو بھی اپنایا اور اسفار میں اپنے تلامذہ اور طلبۂ جامعہ کو لے کر نکلتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، اعلی درسگاہوں، اونچی علمی و عملی شخصیتوں سے متعارف کرواتے ہیں اور اسی مذکورہ بالا قولِ زریں کے مصداق "السفر وسیلۃ الظفر" سے بڑا وافر حصہ کھینچ لے آتے ہیں۔
اس مرتبہ آپ نے اپنے جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ کرام کے لیے ششماہی کی 15 روزہ تعطیلات میں سے ایک ہفتے کا ایسا ہی نفع سے بھرپور سفر کا منصوبہ بنایا، ریاست کرناٹک کے ایک شہر، زندگی سے لبریز؛ سندگی جانے اور وہاں جا کر مدرسہ بیت العلوم میں مولانا عبدالحق ندوی صاحب کے شخصیت سازی [personality development] کے نو ماہی کورس کو سمجھنے اور استفادہ کی غرض سے چار روزہ قیام کا پروگرام ترتیب دیا۔ اسی ضمن میں اول و آخر اک اک روز تاریخی شہر بیجا پور اور گلبرگہ کے تاریخی مقامات دیکھنے، ذہن و دماغ کے لیے نشاط بخش سیر و تفریح کو بھی شامل کر لیا۔
___________
__ اس سفر سے راقم کو کیا حاصل ہوا اور قارئین اس کے سفرنامے سے کیا حاصل کرسکیں گے؟
اب تک دہلی ، آگرہ ، حیدرآباد وغیرہ پھر مہاراشٹر کے اورنگ آباد ، خلد آباد ، ایلورہ ، اجنتا وغیرہ کی سیر و سیاحت ہوئی تھی اور انہی علاقوں کے سفرنامے مرتب ہوئے، کرناٹک کے بیجاپور، گلبرگہ میں پہلی مرتبہ جانا ہوا۔ اس مرتبہ اِدھر کی سیر ہوئی تو اِس طرف کے لوگوں کے مزاج و طبیعت، تہذیب و اخلاق کا مشاہدہ و معاملہ ہوا، اِس طرف کی شاندار اسلامی تاریخ کا علم ہوا اور موجودہ دینی و دعوتی سرگرمیوں اور مراکز کی بھی کچھ واقفیت ہوئی، ساتھ ہی ٹرین کا تازہ؛ کچھ تلخ ، کچھ شیریں تجربہ بھی ہوا۔
خلاصہ یہ کہ اس سفرِ سندگی میں کرناٹک کی خوبصورت اسلامی تاریخ اور اس کے آثار و مقامات کا مشاہدہ ہوا، قارئین بھی اس سفرنامے کے ذریعے چشمِ تصور سے ایک جھلک دیکھ سکیں گے۔ ریاست کرناٹک کے نمو و زندگی سے بھرپور، ترقی کی راہوں پر گامزن، جدید تقاضوں کا ادراک رکھنے والا اور زمانے کا نبض شناس ادارہ؛ مدرسہ بیت العلوم، سندگی؛ کی خوب اچھی علمی سیر کی، یہاں کی نصف درجن سے زائد علمی و تحریکی شخصیتوں سے واقفیت ہوئی اور متحرک و فعال عملی انسانوں سے ملاقاتیں رہی، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، قارئین بھی یہ سیر؛ چشمِ تصور سے کر سکیں گے۔
اور سب سے اہم فائدہ جو ہوا وہ یہ کہ شخصیت سازی کے ایک انوکھے کورس اور اس کے بہترین نتائج کو جانا، دیکھا اور اچھی طرح پرکھا، قارئین بھی اس سفرنامے کے ذریعے اس سے مکمل واقفیت حاصل کر سکیں گے۔ ان شاءاللہ العزیز.
اس سفرنامے کو سلسلہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ أنیب.
0 تبصرے