جوانی کر فدا اس پر .....



✍ نعیم الرحمن ندوی 

     دو چیزیں بڑی قیمتی ہیں، ایک ہے جوانی اور دوسری ہے راتیں اور راتوں کا آخری پہر۔ جوانی؛ زندگی کا ایسا حصہ ہے جس میں لااُبالی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور راتوں کا آخری پہر بھی ایسا وقت ہے جس میں غفلت و لاپرواہی اپنے انتہا پر ہوتی ہے، اور کوئی بندہ ان دونوں وقت کی غفلت دور کرکے مقصدِ حیات کو سامنے رکھے، جوانی کو صحیح مصرف میں خرچ کرے تو اللہ تعالی کے یہاں اس کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔
     بمبئی کی فلم نگری سے "جوان" نامی فلم چلی اور مالیگاؤں کے مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد کی جوانی داغدار کرگئی، ساتھ ہی وقت کے انتہائی قیمتی حصے کی ناقدری کرتے ہوئے رب کریم کو بہت ناراض کرنے والے فعل میں مبتلا کردی۔
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی 
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

 اس پس منظر میں درج ذیل مضمون پیش ہے۔

راتیں اور راتوں کی عبادت :
      اسلام میں راتیں؛ دنوں سے زیادہ قیمتی ہیں، اسی لئے دنوں سے پہلے آتی ہیں، دن میں دو نمازیں ہیں تو رات میں تین، دن کی خاموش نمازیں تو راتوں کی جہری و بآوازِ بلند، دن کو ہنگامہ ہائے معاش کا وقت اور رات کو تیارئ معاد کے مواقع۔

      راتیں؛ اِن کا نام ہے لیلۃ القدر : قدر کی رات، لیلۃ الجائزة : انعام کی رات، لیلۃ النصف من شعبان : شب برأت، جہنم سے آزادی دیئے جانے کی رات، لیلۃ العیدین : عیدین کی راتیں، دعاؤں کی قبولیت کی راتیں۔ اس طرح ان کو تقدس بخشا گیا، راتوں ہی کو نزول ملائکہ کے لیے خاص کیا گیا اور رات ہی کے آخری پہر ارض و سماء کا رب سماءِ دنیا پر نزول فرماتا، بندوں کی مغفرت اور عطا و بخشش کیلئے پکار لگاتا ہے، راتوں ہی کو عباد الرحمن؛ رحمان کے خاص بندے اٹھ اٹھ کر اس کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے، اپنی پیشانیوں کو اس کے قدموں میں رکھ کر اپنے کو اس کی خصوصی رحمت کا مستحق بناتے ہیں؛ وعباد الرحمن... الذین یبیتون لربہم سجدا و قیاما. 
     دنیا والے راتوں کو عیاشی کرتے ہیں، ناچتے گاتے، رقص و سرود کی محفلیں جماتے ہیں اور آخرت والے راتیں آنکھوں میں کاٹ کر مجاہدات کرتے ہیں۔ دنیا والے نفس پرستی و شہوت پرستی میں دنیا گنواتے ہیں، آخرت والے نفس کشی وخدا پرستی میں جنت کماتے ہیں۔ دنیا والے راتوں کو بستروں پر نیند کے مزے لیتے ہیں، آخرت والے رب کے حضور مصلوں پر بیٹھ کر شب بیداری کی لذتیں اٹھاتے ہیں۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے عجیب دعا فرمائی؛ وإذا أقررت أعين اهل الدنيا من دنياهم فأقرر عيني من عبادتك :
 اے اللہ! جب دنیا دار لوگ دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں تب تو میری آنکھوں کو اپنی بندگی و عبادت سے ٹھنڈی فرما۔
       ان کا انعام بھی اللہ پاک نے چھپا کر رکھا اور اپنے قرآن میں وہ بخشش بطور سرپرائز دیئے جانے کا اعلان کیا، ارشاد باری ہے؛
تتجافی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا و طمعا ومما رزقناھم ینفقون ۞ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون ۞
ترجمہ: ان کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا ہوتے ہیں وہ اپنے پروردگار کو ڈر اور امید (کے ملے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، وہ اس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ ۞ چنانچہ کسی انسان کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ ۞

تفسیر: یعنی خزانہ غیب میں ایسے نیک لوگوں کے لیے جو نعمتیں چھپی ہوئی ہیں وہ انسان کے تصور سے بھی بلند ہیں۔


جوانی اور جوانی کی عبادت :
    جوانی کی قیمت بتانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس حصۂ زندگی کی پوچھ الگ سے ہوگی، اس کے بارے میں انسان سے اسپیشل سوال ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
___ ” آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا؟ اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا؟ اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا؟ “
(عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تزول قدما ابن آدم يوم القيامة من عند ربه حتى يسال عن خمس: عن عمره فيم افناه، وعن شبابه فيم ابلاه، وماله من اين اكتسبه، وفيم انفقه، وماذا عمل فيما علم ") 

قیامت کے پانچ سوالات
1. اپنی عمر کہاں گزاری؟
2. جوانی کن کاموں میں خرچ کی؟
3. مال کہاں سے کمایا؟
4. اور کہاں پر خرچ کیا؟
5. اپنے علم پر کیا عمل کیا؟ 
[ترمذی: 2417]

         اور اسی خاص حصۂ زندگی؛ شباب و جوانی کو صحیح مصرف میں گزارنے یعنی رب کی بندگی میں لگانے پر زبردست انعام سے بھی نوازا جائے گا۔ قیامت؛ جس دن عرش کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اُس دن سات قسم کے لوگوں کو یہ سایہ نصیب ہوگا؛ سبعة يظلهم الله في ظله ، يوم لا ظل إلا ظله_ جن میں سے ایک وہ نوجوان ہوگا جس کی جوانی کی اُٹھان اللہ کی بندگی و سرافگندگی میں ہوئی ہو، ایسے جوان کو مہربان خالق عرش کے سایے میں جگہ دے گا؛ شاب نشأ في عبادة الله عز وجل _  
اسی لئے عقلمندی اسی میں ہے کہ 
کسی خاکی پر مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو

غفلت کی انتہا اور قانونِ الہی :
       ناچنا گانا؛ اللہ پاک کو بہت ناپسند ہے، یہ عمل اپنے مقصدِ زندگی سے انتہائی غفلت کی علامت ہے بلکہ خود فراموشی اور خدا فراموشی ہے۔ ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رقص و سرود کو زلازل کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ یہ چیز جب اہل ایمان میں اجتماعی رخ اختیار کرتی ہے تو خدا کا غضب بھڑک اٹھتا ہے، زمین کانپ جاتی ہے، تھرتھرا جاتی ہے، گنہگاروں کو نگل لینے کیلئے بےقرار ہوجاتی ہے پھر قوموں کو الٹا کر رکھ دیا جاتا ہے، تہذیبوں کی بساط لپیٹ اور سمیٹ دی جاتی ہے، پچھلی تاریخیں اس بات کی گواہ ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اسی بات کو شعر میں یوں بیان کیا ہے؛
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
ہے تیر وسناں اول طاؤس ورَباب آخر
    بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں جب بزم میں ناچنے گانے میں لگی تو ان کا رزم کا جوہر زنگ آلود ہو گیا، وہ میدان کے مرد کے بجائے نامَردی و بزدلی کا شکار ہوکر رہ گئے اور دوسری تازہ دم قوموں نے میدان مار لیا، ہماری سرزمینِ ہند پر چند صدی قبل مسلم مغل حکومت کا زوال اور تازہ دم یورپین استعماری قوموں کی مثال تاریخ کے صفحات پر مٹی نہیں ہے، ابھی بھی تازہ ہے۔

     عیش و عشرت اور ناچ گانا قوموں کی نَیّا ڈبودیتا ہے، ایسی غفلت کے سمندر میں ڈوبے ہوؤں کو اس وقت ہوش آتا ہے جب ہوش آنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ کم اھلکنا من قبلھم من قرن فنادوا ولات حین مناص : اِن سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔ (ص: 3)
     ایسے حالات میں اللہ کے نشتر سے قوموں کی عملِ جراحی شروع ہوتی ہے پھر اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
      اس پس منظر میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات اور علامہ اقبالؒ کے اشعار کی یہ تشریح قابلِ مطالعہ ہے۔

      نقوش اقبال صفحہ 253 پر آپ رقمطراز ہیں ___ "سلطنتوں کے آغاز و انجام، قوموں کے ماضی و حال کے عظیم تفاوت کو ان قوموں کی تاریخ کے آئینہ میں دیکھ کر آپ اقبال کے اس شعر کی صداقت کا اندازہ لگائیے ، جس میں انھوں نے دنیا کے ہزاروں سال کی تاریخ اور اقوام و ملل کے عروج وزوال کا خلاصہ پیش کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طاؤس و رَباب آخر

     لیکن یہ مضمون نامکمل رہ جائے گا، اگر اس میں اتنا اضافہ نہ کیا جائے کہ جب طاؤس و رباب کا یہ دور آتا ہے اور قوموں اور سلطنتوں پر زندگی سے تمتع ، تفریح و تعیش کا ہسٹریائی دورہ پڑتا ہے اور اس سلسلہ میں وہ ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتی اور ہر حقیقت کو نظر انداز کر دیتی ہیں، تو خدا کی حکمت بالغہ اس موقع پر عمل جراحی کو ضروری سمجھتی ہے اور اس عمل جراحی کے لئے کسی چنگیز کسی تیمور اور کسی نادر شاہ افشار کا انتخاب کر لیتی ہے جو اس فاسد پھوڑے پر نشتر کا کام کرتا ہے، اقبال ہی کا شعر ہے۔

کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا
 اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز"
(نقوش اقبال ص 253)

ففروا الی اللہ :
     دنیا آسان امتحان گاہ نہیں، بڑی کٹھن آزمائش کی جگہ ہے، موجودہ حالات میں تو امتحان اور بھی سخت ہوتا جا رہا ہے اس لیے کہ باطل کا بازو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مضبوط ہو رہا ہے ایسے میں اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے تو قرآن ایک ایسی تعبیر میں اس صورتحال سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ واقعی اسی طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ وہ کہتا ہے؛ _ بھاگو! اللہ کی طرف، فرار ہو! دنیا اور نفس وشیطان سے اور پناہ لو اللہ کی پناہ گاہ میں۔
     اور اللہ رحیم و ودود تمام تر گناہ معاف کرنے پر ہمہ وقت نہ صرف تیار رہتا ہے بلکہ اس کی پکار لگاتا ہے؛
یعبادی الذين أسرفوا علی أنفسهم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ إن اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحيم
     لیکن یہ بھی کہتا ہے کہ وقت رہتے لوٹ آؤ ، وقت نکل جانے پر افسوس ہوگا اور اس وقت لیت و لعل بے فائدہ ہوگا۔ 
... وانیبوا الی ربکم واسلموا لہ من قبل أن یأ تیکم العذاب بغتۃ وأنتم لاتشعرون ... 

      چنانچہ آئیں دوڑ چلیں! رب کی آغوشِ رحمت میں، تمام نفسانی و شہوانی گناہوں سے دامن جھاڑ لیں، تمام شیطانی وساوس و اعمال سے دستبردار ہو کر سچی پکی توبہ کر لیں اور اس پروردگار کو راضی کرلیں، جس کا راضی ہو جانا سب سے بڑی چیز ہے؛ "ورضوان من اللہ اکبر" اور اس کا راضی کرنا بھی سب سے آسان بات ہے، وہ توبہ کرنے والوں سے، نادم وشرمندہ ہونے والوں سے، سب راضی ہونے والوں میں سب سے جلد راضی ہوتا ہے۔ 

کسی خاکی پر مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

جزاکم اللہ خیرا الجزاء