صحابیؓ کی تصدیقِ ایمانی پر نبیﷺ کی جانب سے انوکھا انعام



#آئیں! صحابہؓ جیسا ایمان لائیں
پانچویں قسط

     ایسی تصدیق جسے ایمان کا اعتبار حاصل ہوا، ایسی تصدیق جسے خود رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ سے پسندیدگی کی سند حاصل ہوئی اور نبی اطہر ﷺ کی زبانِ مبارک سے انوکھا انعام دیا گیا؛ وہ یہی مذکورہ بالا تصدیقِ ایمانی ہے۔ اس ضمن میں وہ واقعہ ملاحظہ کیجئے۔

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک اعرابی کے درمیان گھوڑے کی خریداری طے پائی اور آپ ﷺ نے اس اعرابی سے یہ گھوڑا خرید لیا۔ بات چیت کے بعد یہ اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا تاکہ آپ ﷺ سے گھوڑے کی قیمت وصول کرلے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی چل رہے تھے اور اعرابی آہستہ آہستہ چل رہا تھا، راستے میں لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ آپ ﷺ نے اس اعرابی سے اس کا گھوڑا خرید لیا ہے چنانچہ لوگ اس گھوڑے کی قیمت لگانے لگے اور اعرابی سے گھوڑے کی خریداری کے سلسلے میں بات چیت شرو ع کردی، گھوڑے کی زیادہ قیمت لگنے پر اس اعرابی نے حضور ﷺ کو آواز دی اور کہا کہ اگر آپؐ اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے ہیں تو معاملہ طے کرلیں، ورنہ میں اس گھوڑے کو فروخت کردوں گا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم نے یہ گھوڑا مجھے فروخت کردیا ہے؟ اس اعرابی نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے تو یہ گھوڑا آپ ﷺ کو فروخت نہیں کیا۔ اور اس اعرابی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپﷺ کے پاس کوئی گواہ ہے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کیا ہے؟

     اس وقت جہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے وہاں پرموجود لوگوں میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ موجود تھے جب انھوں نے اعرابی کو یہ پکارتے سنا تو آپ ؓ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ گھوڑا آپ ﷺ نے تم سے خریداہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم کس وجہ سے گواہی دے رہے ہو؟ جب ہمارے درمیان اس گھوڑے کی خریداری کا معاملہ طے پایا تو تم وہاں موجود نہیں تھے۔ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ، آپ ﷺ کی تصدیق کی وجہ سے۔ (یعنی جب میں آپ ﷺ کی بتائی ہوئی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں، آئندہ ہونے والے واقعات کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا میں اس گھوڑے کی خریداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہیں کرسکتا۔“)

       حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے اس جواب پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور فرمایا اے خزیمہ ؓ! آج سے تم دوگواہوں کے قائم مقام ہو (یعنی تمہاری گواہی دو گواہوں کے برابر ہے) اورفرمایا ” جس کے حق میں یا جس کے خلاف خزیمہ ؓ گواہی دے دیں ان کی تنہا گواہی ہی اس کے لئے کافی ہے۔ “

فأَقْبَلَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم على خُزيمةَ فقال" رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: "بِمَ تَشْهَدُ؟"، أي: بماذا تَشْهدُ؟ وكيف تَشْهَدُ أنَّهُ قد بايَعَني ولم تَكُنْ حاضرًا عند البَيعِ؟ "فقال" خزيمةُ: "بِتَصْديقِكَ يا رسولَ اللهِ"، أي: بتَصْديقِ اللهِ تعالى إيَّاكَ في تبليغِ الرِّسالةِ وأنَّك صادقٌ فيما تقولُ، وأنتَ مُصدَّقٌ في خَبَرِ السَّماءِ وبالوحيِ؛ فكيف لا تُصدَّق في كلامِك مع أعرابيٍّ؟! "فجَعَلَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم شَهادةَ خُزيمةَ بشَهادةِ رَجُلينِ"، أي: حَكَمَ بذلك وشَرَعَ في حقِّهِ؛ إمَّا بوحيٍ، أو تفويضٍ مِنَ اللهِ تعالى في مِثْلِ هذه الأمورِ.
(سنن ابی داؤد، حدیث: ۳۶۰۷)

برمحل استدلال پر انعام :
      اس پورے واقعے میں اہم ترین فقرہ یہی حضرت خزیمہؓ کا یہ جواب تھا "فقال خزيمةُ: بِتَصْديقِكَ يا رسولَ اللهِ" : آپ ﷺ کی تصدیق کی وجہ سے

      یعنی جب میں آپ ﷺ کی بتائی ہوئی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں ، آئندہ ہونے والے واقعات کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا میں اس گھوڑے کی خریداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہیں کرسکتا۔

      یہی تصدیقِ ایمانی تھی جس کا شعور صحابہؓ کو رہا کرتا تھا اور اس شعور کے ساتھ ایمان؛ نبی ﷺ کو پسند تھا، یہ شعور تمام صحابہؓ کو تھا اور ایمان کی حقیقت دلوں میں اتری ہوئی تھی لیکن جن صحابئ رسولؐ نے اس تصدیق کا برمحل استدلال کیا نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو اِس سے بہت خوشی ہوئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے انہیں دین میں اعتبار کا ایک انوکھا اعزاز بخشا، اس برمحل استدلال پر انوکھا انعام دیا، اعلان کیا کہ ان کی گواہی دو سچوں کی گواہی کے برابر ہے، یہ اعزاز پھر کسی اور کے حصے میں نہ آسکا۔

       ضرورت ہے کہ ایمان و اسلام کے اس شعور کو تازہ کریں، صحابہ کرامؓ جیسا شعوری تصدیق و تسلیم والا ایمان لائیں اور موافق و ناموافق ہر حال میں اس پر ثابت قدم رہیں کہ ایمان لانے کے بعد پھر اس پر تاحیات ثابت قدمی سب سے بڑی چیز ہے۔ نبی علیہ السلام نے ایک صحابیؓ کو اسی بات کی تلقین فرمائی جب انہوں نے دریافت کیا _ اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی پکی بات بتائیے کہ آپ کے بعد کسی سے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے۔
 آپ نے ارشاد فرمایا: قُلْ: آمَنْتُ بِاللہ ثُمّ اسْتَقِم. کہو! میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر پکے ہو جاؤ۔

جاری _______
٭ صحابہؓ جیسا ایمان لائیں؛ کس طرح؟
٭ سب سے زیادہ فکر کی بات 
٭ صحابہؓ کا ایمانی مزاج
٭ مؤثر ترتیب 
٭ ترتیبِ بالا کی اثر انگیزی
_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے