دربارِ نجاشی میں جعفر طیارؓ کی تقریر



#آئیں! صحابہؓ جیسا ایمان لائیں!
چوتھی قسط

  صحابہ کرامؓ اس تصدیقِ ایمانی ہی کو اسلام کے تعارف اور ایمان کی دعوت میں پیش کیا کرتے تھے، مسلمانوں کے؛ حبشہ ہجرت کے بعد مشرکینِ مکہ نے مسلمان مہاجرینِ حبشہ کی دھرم واپسی اور گھر واپسی کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے شاہِ حبشہ کے دربار تک رسائی حاصل کرلی، ان کی شرارتوں کی وجہ سے شاہِ حبشہ؛ نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کا بلانا ہوا، کہا گیا کہ تم نے اہلِ مکہ کا پرانا دین چھوڑ دیا اور ہمارے دین؛ عیسائیت پر بھی نہیں ہو تو اپنا نیا دین کیا ہے بتاؤ؟
     اس کے جواب میں قافلۂ مہاجرین کے ایک فرد نے جو خلاصہ بیان کیا وہ ایک نہیں دسیوں سوالوں کا بہترین جواب ہے۔ اس جواب نے جس طرح نجاشی کو ساڑھے چودہ سو سال قبل مطمئن کیا تھا آج بھی اپنی وہی تاثیر رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہر ملک کے شرکیہ ماحول میں دینِ اسلام کی ضرورت کتنی ہے؟ انہوں نے دینِ اسلام کیوں قبول کیا؟ اس دین کی آواز لگانے والا کیسا تھا؟ اور جس چیز کی آواز لگائی تھی یہ ہر وقت کے، ہر ملک کے دبے کچلے لوگوں کے دلوں کی آواز کیوں تھی؟

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے سیرت رسول اکرمؐ (ص 57) میں اس واقعے کو اس طرح رقم فرمایا ہے؛
 
      مسلمان نجاشی کے دربار میں بلائے گئے ، تب نبی ﷺ کے چچیرے بھائی جعفر طیارؓ نے دربار میں یہ تقریر کی: اے بادشاہ ! ہم جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے تھے، نجاست میں آلودہ تھے ، مُردار کھاتے تھے، بیہودہ بکا کرتے تھے، ہم میں انسانیت اور سچی مہمانداری کا نشان نہ تھا، ہمسایہ کی رعایت نہ تھی، کوئی قاعدہ و قانون نہ تھا، __ (فكنا على ذلك حتى بعث الله إلينا رسولا منا نعرف نسبه، وصدقه، وأمانته، وعفافه : ایسی حالت میں خدا نے ہم میں سے ایک بزرگ کو مبعوث کیا جس کے حسب ونسب، سچائی، دیانت داری، تقوی و پاکیزگی سے ہم خوب واقف تھے۔) __ اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی اور سمجھایا کہ اس اکیلے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اس نے ہم کو پتھروں کی پوجا سے روکا، اس نے فرمایا کہ ہم سچ بولا کریں، وعدہ پورا کیا کریں، گناہوں سے دور رہیں، برائیوں سے بچیں، اس نے حکم دیا کہ ہم نماز پڑھا کریں، صدقہ دیا کریں اور روزے رکھا کریں، __ (فصدقناه وآمنا به واتبعناه على ما جاء به، فعبدنا الله وحده، فلم نشرك به شيئا، وحرمنا ما حرم علينا، وأحللنا ما أحل لنا : تو ہم نے اس کی تصدیق کی، اس پر ایمان لایا اور اس کی باتوں کی اتباع کی ..... ) ہماری قوم ہم سے ان باتوں پر بگڑ بیٹھی ہے، قوم نے جہاں تک ہوسکا ہم کو ستایا تاکہ ہم وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا چھوڑ دیں اور لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرنے لگ جائیں، ہم نے ان کے ہاتھوں بہت ظلم اور تکلیفیں اٹھائی ہیں اور جب مجبور ہو گئے ، تب تیرے ملک میں پناہ لینے آئے ہیں۔،،
     بادشاہ نے یہ تقریر سن کر کہا مجھے قرآن سناؤ! جعفر طیارؓ نے اسے سورہ مریم سنائی، بادشاہ پر ایسی تاثیر ہوئی کہ وہ رونے لگا اور اس نے کہا "محمد تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیحؑ نے دی تھی، اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس رسول کا زمانہ ملا۔" پھر بادشاہ نے مکہ کے کافروں کو دربار سے نکلوا دیا۔
 
تقریر کا اہم نکتہ
..... حتی بعث الله إلينا رسولا منا نعرف نسبه، وصدقه، وأمانته، وعفافه : ایسی حالت میں خدا نے ہم میں سے ایک بزرگ کو مبعوث کیا جس کے حسب ونسب، سچائی، دیانت داری، تقوی، پاکیزگی سے ہم خوب واقف تھے۔
..... فصدقناه وآمنا به واتبعناه على ما جاء به : تو ہم نے اس کی تصدیق کی، اس پر ایمان لائے اور اس کی تمام باتوں میں اتباع کی۔ 
      یہ ہے تصدیق و تسلیم، اور یہی ہے صحابہؓ کے ایمان کی بنیاد، یہی بات ہم سے مطلوب ہے، اسی پر ہمارے ایمان کا اعتبار ہے، یہی چیز ہمیں ارتداد سے بھی بچائے گی اور ہر قسم کے شک، شبے سے بھی دور رکھے گی اور موت تک ہمارے، ہماری نسلوں کے دین پر استقامت کی ضامن بنے گی۔


مکی معاشرہ اور ہندوستانی سماج

      حضرت جعفر طیارؓ کی بیان کردہ باتوں میں اُس وقت کے مکی معاشرے کی جو تصویر ابھرتی ہے کچھ ایسی ہی تصویر ہند میں ہندوستانی سماج کی بھی بنتی تھی، مذہبی طبقہ قریش نے جو مذہبی اجارہ داری قائم کرکے مکہ و اطراف میں اپنے لئے بہت سے تحفظات و ریزرویشن رکھے تھے کچھ ایسے ہی تحفظات؛ ہند میں مذہبی پیشوائی کے علمبردار طبقے نے بھی اپنے لئے طے کرلئے تھے اور طبقہ واریت اور سماجی ناانصافی کو مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھا کر یہاں کی اصل آبادی کو اس میں بری طرح جکڑ لیا تھا، جس کی جکڑن آج تک قائم ہے۔ اسلام نے جیسے ہی ہندوستان میں دستک دی فوراً ہی یہاں کی مظلوم آبادی نے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیئے اور لاکھوں کی تعداد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، کوئی بعید نہیں کہ ہم اُنہیں باشعور نومسلموں کی اولاد ہوں۔ آج اگر ہم اسلام سے پھرتے ہیں، مرتد ہوتے ہیں تو گویا ہم دوبارہ اُسی مظلومیت اور طبقہ واریت و سماجی ناانصافی میں اپنے آپ کو قید کروائیں گے، دانشمندی اسی میں ہے کہ مہاجرینِ حبشہ کے باشعور خطیب؛ جعفر طیارؓ کی طرح اسلام پر شعوری استقامت کا مظاہرہ کریں اور برملا اعلان کریں۔
نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا 
عَلَى الْإِسْلَامِ مَا بَقِيْنَا أَبَداً 
ہم وہ ہیں جنھوں نے ہمیشہ کے لئے محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی ہے۔

اس ایمانی نعرہ کی تاریخ 
      یہ وہ ہمت افزا و جرأت افروز شعر ہے جو صحابہؓ کی زبانوں پر انتہائی قربانی و جانفشانی کے موقع پر یعنی غزوۂ خندق کے دوران جاری ہوا، نبی ﷺ بھی صحابہؓ کے ساتھ خندق کھودنے کی مشقتیں اٹھا رہے ہیں، بھوک اور کھانا نہ ہونے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کے پیٹوں پر اک اک تو نبی کریم ﷺ کے بطنِ مبارک پر دو دو پتھر بندھے ہوئے ہیں اور ہر طرف سے دشمن کے لشکروں میں گِھر جانے کے اندیشے ہیں ایسے عالم میں یہ جاں نثارانِ نبیؐ؛ آپؐ پر تن من دھن سب کچھ نچھاور کردینے والے اور عشقِ رسولؐ میں ساری دنیا سے ٹکرا جانے والے؛ ایک الگ ہی دیوانگی میں گنگناتے ہیں۔

نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا 
عَلَى الْإِسْلَامِ مَا بَقِيْنَا أَبَداً 

جاری _______
٭ صحابیؓ کی تصدیقِ ایمانی پر نبیﷺ کی جانب سے انوکھا انعام 
_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے