#آئیں! صحابہؓ جیسا ایمان لائیں!
تیسری قسط
دوسرا منادی؛ قرآن کریم ہے، جس طرح پہلے منادی؛ شخصیتِ رسولؐ سمجھ والوں کے لیے ناقابلِ انکار ہیں کہ اس کے پیچھے آپؐ کی چالیس سالہ پاکیزہ ترین زندگی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس آواز کے پیچھے اس کا ببانگِ دہل کلامِ الہی ہونے کا اپنے نزول سے لیکر آج ساڑھے چودہ سو سال سے زائد کا طویل اور مسلسل چیلنج ہے جس کا سامنا اب تک کسی فردِ بشر سے نہ ہوسکا اور نہ ہی کبھی ہوسکے گا۔ (فأتوا بسورۃ من مثلہ ... فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا ...)
قرآن کی ندا
پروردگارِ عالم کے کلام کی حیثیت سے قرآن بھی ندا لگاتا ہے اور منادئ اول کی تائید کرتے ہوئے اس پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے؛
يا أيها الناس قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فآمنوا خيرا لكم ۚ وإن تكفروا فإن لله ما في السماوات والأرض ۚ وكان الله عليما حكيما ۞
ترجمہ: اے لوگو ! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پرورگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں اب (ان پر) ایمان لے آؤ، کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے، اور اگر (اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو (خوب سمجھ لو کہ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے، اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔ (النساء: 170)
اُسی خدا وحدہ لا شریک لہ کی بندگی کی تلقین کرتا ہے؛
یا أیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم
اے لوگو! بندگی اپنے پروردگار کی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے اگلوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔
پروردگار عالم کے رسول سے اپنی پیغمبری، اپنی رسالت کے اعلان کی ندا لگواتا ہے، اور ان کے منادئ عام ہونے کو واضح کرتا ہے؛
قل یا أیھا الناس إنی رسول اللہ الیکم جمیعا...
اے نبی علیہ السلام کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
پھر جو لوگ اس پکار پر ایمان لائے انہیں محبت سے پکارتا ہے؛
یا أیھا الذین آمنوا ... اے وہ لوگ جنہوں نے ایمان قبول کر لیا، اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے!
اور جو ایمان کے بعد بھی بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہو گئے انہیں رب کی مایوسی سے بچاتا اور اس کی رحمت واسعة کی دُہائی دیتا ہے؛
یٰعبادی الذين أسرفوا علی أنفسهم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ .....
اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جان پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
کافر بندوں کو بھی الگ سے ندا لگاتا ہے اور یوم القیامۃ کی ناکامی اور برے انجام سے یوں باخبر کرتا ہے؛
یا أیھا الذین کفروا لا تعتذروا الیوم ...
اے کفر اختیار کرنے والو! آج معذرتیں پیش مت کرو ...
حدیث مبارکہ کی تائید
ان سب کے علاوہ حدیث میں بھی قرآن کے داعی اور منادی ہونے کی بہترین مثال دی گئی ہے جس سے تفسیرِ بالا کی خوب وضاحت ہوجاتی ہے؛
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَنْ جَنَبَتَيِ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرَخَاةٌ وَعِنْدَ رَأْسِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ: اسْتَقِيمُوا عَلَى الصِّرَاطِ وَلَا تَعْوَجُّوا وَفَوْقَ ذَلِكَ دَاعٍ يَدْعُو كُلَّمَا هَمَّ عَبْدٌ أَنْ يَفْتَحَ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ: وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ . ثُمَّ فَسَّرَهُ فَأَخْبَرَ: أَنَّ الصِّرَاطَ هُوَ الْإِسْلَامُ وَأَنَّ الْأَبْوَابَ الْمُفَتَّحَةَ مَحَارِمُ اللَّهِ وَأَنَّ السُّتُورَ الْمُرَخَاةَ حُدُودُ اللَّهِ وَأَنَّ الدَّاعِيَ عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ هُوَ الْقُرْآنُ وَأَنَّ الدَّاعِيَ مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ اللَّهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُؤمن)
ترجمہ: ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی، کہ راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں دروازے کھلے ہوئے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، راستے کے سرے پر ایک داعی ہے، وہ کہہ رہا ہے، سیدھے چلتے جاؤ، ٹیڑھے مت ہونا، اور اس کے اوپر ایک اور داعی ہے، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی چیز کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: تم پر افسوس ہے، اسے مت کھولو، کیونکہ اگر تم نے اسے کھول دیا تو تم اس میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’راستہ اسلام ہے، کھلے ہوئے دروازے، اللہ کی حرام کردہ اشیاء ہیں، لٹکے ہوئے پردے، اللہ کی حدود ہیں، راستے کے سرے پر داعی: قرآن ہے، اور اس کے اوپر جو داعی ہے، وہ ہر مومن کے دل میں اللہ کا واعظ ہے۔
رب کے منادیوں کا عملی جواب
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرح منادئ اول یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع فرماتے تھے، اک اک ادائے نبیؐ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا تھا، اُسی طرح منادئ ثانی یعنی کلام الٰہی سے بھی پوری طرح وابستہ تھے۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام بھی انہیں قرآن سے مضبوطی سے جوڑے رکھنے کی بھرپور کوشش فرماتے تھے۔ عام صحابہؓ کا معمول تھا کہ راتوں کو تہجد میں پابندی سے تلاوتِ قرآن فرماتے تھے، اور تدبر وتفکر کے ساتھ فرماتے ہیں، نبی علیہ السلام ان کی نگرانی فرماتے، اس سلسلے میں کبار صحابہؓ کی رہنمائی کرنے کے لیے رات کی آخری گھڑیوں میں بذاتِ خود ان کے مکانوں کی طرف تشریف لے جاتے اور کان لگاکر ان کی تلاوتوں کو سنتے۔ ایک مرتبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہا کہ قرآن بہت آہستہ پڑھتے ہو آواز تھوڑی بلند کرلیں۔ عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آواز بلند ہوتی ہے اس کو تھوڑا پست کرلیں۔ صحابہؓ جیسا ایمان؛ تصدیق و تسلیم کے بعد اسی راستے سے پختہ اور مضبوط ہو سکتا ہے۔
صحابہ کرامؓ نے اس منادئ رب یعنی قرآن کریم کی ندا پر کیسی توجہ دی تھی اور کیسا کان دھرا تھا! ان پر یہ آیت صادق آتی ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم ان کے حق میں سراپا نصیحت نامہ بنتا تھا۔ سچ ہے؛ قرآن میں نصیحت اس کے لیے ہے جس کے سینے میں زندہ دل ہو یا حضورئ قلب کے ساتھ کان اس کی طرف لگاتا ہے۔
إن فی ذلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب أو القی السمع وھو شھید ۞ (ق: 37) __ یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔
جاری _______
٭ دربارِ نجاشی میں جعفر طیارؓ کی تقریر
٭ تقریر کا اہم نکتہ
٭ مکی معاشرہ اور ہندوستانی سماج
٭ ایک ایمانی نعرے کی تاریخ
_____________________
0 تبصرے