صفا پہاڑی کا منادی



#آئیں! صحابہؓ جیسا ایمان لائیں!
دوسری قسط


   بارگاہِ الہی میں جب ہم دعا کرتے ہیں، مغفرت طلب ہیں، گناہوں کا کفارہ مانگتے ہیں اور خاتمہ بالخیر کیلئے نیکوں کی طرح وفات کی درخواست کرتے ہیں تو عرض کرتے ہیں؛
ربنا إننا سمعنا مناديا ينادي للإيمان أن آمنوا بربكم فآمنا ۞ ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وكفر عنا سيئاتنا وتوفنا مع الأبرار ۞ ربنا وآتنا ما وعدتنا على رسلك ولا تخزنا يوم القيامة إنك لا تخلف الميعاد ۞ فاستجاب لهم ربهم أني لا أضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى بعضكم من بعض ...﴾ (آل عمران: 193-195)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ لہذا اے ہمارے پروردگار ! ہماری خاطر ہمارے گناہ بخش دیجیے، ہماری برائیوں کو ہم سے مٹا دیجیے، اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر کے اپنے پاس بلایئے۔ ۞ اور اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ کچھ بھی عطا فرمایئے جس کا وعدہ آپ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم سے کیا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے۔ یقینا آپ وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے۔ ۞ چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ ۞

       درج بالا آیات بڑی معنی خیز اور نبوت و رسالت کی اہم ترین سوغات ہے، روایت ہے کہ بعض غیر مسلم نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ ؑ عصا اور ید بیضا لائے تھے، عیسیٰ ؑ اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اچھا کرتے تھے، دوسرے پیغمبر بھی کچھ نہ کچھ معجزے لائے تھے، آپ فرمائیں کہ آپ کیا لائے ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے اس رکوع کے آغاز سے یہاں تک کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان سے کہا میں تو یہ لایا ہوں۔
    ان آیات کی اسی اہمیت اور معنویت کی وجہ سے آپ ﷺ رات کی تاریکیوں میں بوقت تہجد آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر اس رکوع کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
____________ 

پہلا منادی؛ الصادق الأمین 

سمعنا منادیاً ینادی للإيمان أن آمنوا بربكم فآمنا 
     "منادی" کی دو تفسیر ہیں 1) منادی سے مراد رسول کریم ﷺ ہیں اور 2) قرآن کریم ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ ان میں پہلے منادی صفا کی پہاڑی سے آواز دینے والے منادی ہیں۔ صحابہؓ اور مشرکین مکہ نے براہ راست سنا اور ان کے بعد معتبر کتابوں اورمعتمد شخصیتوں کے بیانات کے واسطے سے ہم نے سنا اور مانا۔ صحابہ کرامؓ نے مانا اور مؤمنین کہلائے، مشرکین نے انکار کر دیا اور کافرین کے زمرے میں شامل ہوگئے۔
     عہد نبوی کے مومن ہوں یا مشرک دونوں ہی ایمان کے معنی و مطلب سے آگاہ تھے ہر دو گروہ نے جو کچھ بھی کیا شعور کے ساتھ کیا اور یہی اللہ پاک کی منشا بھی تھی۔ 
لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیی من حیی عن بینۃ و أن اللہ لسمیع علیم. : تاکہ جسے برباد ہونا وہ واضح دلیل دیکھ کر برباد ہو اور جسے زندہ رہنا وہ واضح دلیل دیکھ کر زندہ رہے، اور اللہ ہر بات سننے والا ہر بات جاننے والا ہے۔ (انفال : 42)

     وہ کوہِ صفا کے منادی اپنی چالیس سالہ زندگی میں انتہائی سچے اور امانت دار تھے، جس بستی میں وہ مقیم تھے ساروں نے انہیں "الصادق الامین؛ انتہائی سچے اور آخری درجے کے امانت دار" کہا تھا۔ أولو الألباب یعنی عقل والوں نے صحیح سوچا کہ جو شخص مخلوق کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ خالق کے بارے میں کیسے جھوٹ بولے گا! جو شخص زمینی باتوں سے متعلق کبھی کذب بیانی سے کام نہیں لیا وہ آسمانی خبروں میں کیسے غلط بیانی کرے گا! انہوں نے صحیح رخ پر سوچا اور ایمان لے آئے، اس منادی کی چالیس سالہ سچی و دیانت والی زندگی اس کی گواہ تھی۔

دعوت کا حکیمانہ انداز
      خود وہ منادی بھی جس انداز میں ندا لگائے وہ انتہائی دانشمندانہ اور أولو الألباب کے لیے ناقابل انکار تھی، وہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے تھے اور دونوں جانب دیکھ رہے تھے جبکہ ان کے سننے والے چوٹی کے ایک طرف کھڑے تھے اور ایک ہی طرف دیکھ سکتے تھے، دوسری طرف دیکھنے سے عاجز تھے۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام بیک وقت دونوں طرف دیکھ رہے تھے، آپ علیہ السلام نے گویا عملی مثال قائم کرتے ہوئے زبان حال سے کہا کہ میں نبوت و رسالت کی چوٹی پر کھڑے ہو کر دنیا اور آخرت دونوں کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں جس طرح پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر دونوں جانب کو دیکھ رہا ہوں اور تم دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کو نہیں دیکھ سکتے ایسے ہی جس طرح تم پہاڑ کے ایک جانب رہ کر کے دوسری طرف کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے عقلمندی اسی میں ہے کہ تم مجھے نبیؐ تسلیم کرلو اور میری دعوتِ ایمان کو قبول کرلو !

    صفا پہاڑی کے اس مُنادِی کے نداء کی تفصیل مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سیرت رسولِ اکرمؐ (ص 34) میں یوں بیان فرماتے ہیں؛
     "ایک روز نبی کریم ﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کے لوگوں کو پکارنا شروع کیا، جب سب جمع ہو گئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مجھے بتاؤ کہ تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا جانتے ہو؟ سب نے ایک آواز سے کہا کہ ”ہم نے کوئی بات غلط یا بیہودہ آپ کے منہ سے نہیں سنی ، ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ صادق اور امین ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دیکھو میں پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے ہو ، میں پہاڑ کے اُدھر بھی دیکھ رہا ہوں اور اِدھر بھی نظر کر رہا ہوں ، اگر میں کہوں کہ رہزنوں کا ایک مسلح گروہ دور سے نظر آ رہا ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوگا کیا تم اس کا یقین کر لو گے ؟ لوگوں نے کہا بیشک! کیونکہ ہمارے پاس آپ جیسے راست باز آدمی کے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں ، خصوصاً جبکہ وہ ایسے بلند مقام پر کھڑا ہے کہ دونوں طرف دیکھ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ سب کچھ؛ سمجھانے کے لئے ایک مثال تھی ، اب یقین کرلو کہ موت تمہارے سر پر آرہی ہے اور تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور میں عالم آخرت کو بھی ایسا ہی دیکھ رہا ہوں جیسا کہ دنیا پر تمہاری نظر ہے۔ اس دل نشین وعظ سے مطلب نبی کریم ﷺ کا یہ تھا کہ نبوت کے لئے ایک مثال پیش کریں کہ کس طرح ایک شخص عالم آخرت کو دیکھ سکتا ہے جبکہ ہزاروں اشخاص نہیں دیکھ سکتے۔"

جاری _______
٭ دوسرا منادی؛ قرآن کریم 
٭ قرآن کی ندا
٭ حدیث مبارکہ کی تائید
_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

جزاکم اللہ خیرا الجزاء