صحابہؓ کا ایمان پہاڑوں جیسا تھا کفر اور شرک کے طوفان اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے تھے اور آج ہمارا ایمان ریت کے ٹیلے جیسا ہوگیا ہے، ایمان مخالف ایک ہلکی سی تیز ہوا اسے متزلزل کر دیتی ہے۔ صحابہؓ کا غیب پر ایمان جبکہ اُس وقت جدید سائنس کا وجود بھی نہ تھا؛ مشاہدے کے درجے کا تھا اور آج جدید سائنس کی روشنی میں ہماری آنکھیں خلا میں لاتعداد کہکشاؤں کو دوربینوں سے دیکھ رہی ہیں، اک اک کہکشاں میں کھربوں نظام شمسی کے موجود ہونے کا یقین کر رہی ہیں اور خردبینوں سے جسم و جان کے رازوں اور پیچیدہ نظاموں کا مشاہدہ کررہی ہیں، اس سب کے باوجود اللہ پاک کے ہونے نہ ہونے کے شک، شبے میں ہم گرفتار ہو جاتے ہیں، دین و ایمان سے پھر جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟!!
اہم چیز سے کوتاہی
آج عصری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم نئی نسل میں ارتداد تیزی سے پھیل رہا ہے، اسلام سے بے اعتمادی اور بیزاری بڑھتی جارہی ہے، اس کی بہت سی وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ نئی نسل جانتی ہی نہیں اسلام اور ایمان کیا ہے؟ ایمان کن چیزوں پر ہونا چاہیے اور کس بنیاد پر ہم مومن ہیں؟ اور کیسا ایمان معتبر ہے؟
ایمان کی کسوٹی و معیار کون؟
بحیثیت مسلمان ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم سے صحابہؓ جیسا ہی ایمان مطلوب ہے، اسی کا مطالبہ ہم سے کیا گیا ہے ؛ یا أیھا الذين آمَنوا آمِنوا ..... ایمان والو! (حقیقی) ایمان لاؤ ___ حقیقی ایمان کس معیار کا ہو؟ آمِنوا کما آمن الناس ..... مؤمنين (أصحابِ رسولؐ) جیسا ایمان رکھتے ہیں ویسا ایمان تم بھی لاؤ ،،،،، --- صحابہؓ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرامؓ کی طرح ایمان لائیں گے۔ (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا .... 2:137)
ایمان کا اعتبار تصدیق پر
دین و ایمان کے معاملے میں ہمارا اعتبار اسلاف کا طریقہ اختیار کرنے ہی پر ہے۔ ہم دین و ایمان پر قائم ہیں چاہے احکامِ دین کی حکمت ومصلحت ہم پر واضح ہو یا نہ ہو، سائنس سے اس کی مطابقت ہو یا نہ ہو۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً حکمتیں، مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اطاعت کو ان مصلحتوں کے سمجھنے پر موقوف رکھے اس کا فریضہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آجائے تو بےچوں وچرا اس کی تعمیل کرے چاہے اس کی مصلحت اس کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو۔
ہمارے ایمان کی بنیاد رسول ﷺ کے صدق و امانت کو دیکھتے ہوئے آپؐ پر اعتماد کرنا، آپؐ کی باتوں کو تسلیم کرنا اور آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرنا ہے۔ حکمِ شریعت کی حکمتوں، مصلحتوں کو کھوجنا، عقل اور سائنس پر پرکھنا پھر اس کی کسوٹی پر اترے تو ماننا ورنہ رد کردینا یہ بنیاد نہیں ہے۔
اعتبارِ ایمان یا معتبر ایمان کونسا؟
قرآن کریم نے ایمان کے لیے صادق و امین فرد؛ رسول ﷺ کی دعوتِ ایمان پر تسلیم و تصدیق کی بات کہی ہے اور اُس صادق و امین رسولؐ نے بھی اپنی بات کی سچائی پر اپنی صدق و امانت والی زندگی کو پیش کیا اور آپؐ کو اسی بات کا حکم بھی دیا گیا، (فقد لبثتُ فیکم عمراً من قبلہ أفلا تعقلون ...) ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اسی بات کو اسلام کے تعارف اور ایمان کی دعوت میں پیش کیا کرتے تھے اور خود بھی اس کا برملا اقرار کیا کرتے تھے۔ اس سلسلہ وار مضمون میں انہی تمام باتوں کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔
جاری _______
٭ صفا پہاڑی کا منادی
٭ پہلا منادی؛ الصادق الأمین
٭ دعوت کا حکیمانہ انداز
_____________________
0 تبصرے