قتل کا جرم اور اسلام کا حکم _ پہلی قسط



#سماج سدھار مہم مالیگاؤں (5)

قتل کا جرم اور اسلام کا حکم
پہلی قسط

    اسلام ہر انسان کو اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے۔ اسلام نے اس حق کا اتنا خیال رکھاہے کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ صرف ایک فرد کو ہی نہیں بل کہ پورے سماج کو اس حق کی حفاظت کی تاکید کرتاہے۔ ارشاد ہے؛
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً ﴿مائدہ:۲۳﴾ ترجمہ: جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
__ تشریح: مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہوجائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جاتے ہیں، لہذا قتلِ ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
        جان بچانے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً کوئی بیماری کی وجہ سے مررہاہے، اس کے پاس دوا علاج کے لیے رقم نہیں ہے تو ایسے فرد کا علاج کراکے جان بچانا، کوئی ڈوب رہاہے، اس کو بچانا، کوئی بھوک اور افلاس کی وجہ سے مررہا ہو تو اس کے افلاس کو دور کرنا اور کھانا کھلاکر اس کی جان بچانا، کوئی سردی میں کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے ٹھٹھررہا ہو تو اس کے لیے گرم کپڑوں کا انتظام کرنا۔ اسلام کی یہ ہدایت عمومی ہے۔ جان کی حفاظت کے لیے وہ کسی نسل، قوم، وطن، خطہ، رنگ، مذہب و ملت، ذات پات اوربرادری کی کوئی شرط نہیں لگاتاہے۔ قرآن ایک موقع پر کہتاہے :
 وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ اِلاَّ بِالْحَق ﴿انعام:۱۵۱﴾ ترجمہ: کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ 

      اسلام کی یہ تعلیم صرف اخلاقی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی بے گناہ کاقتل کرتا ہے تو اس کو قتل کردیا جائے:
 وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ اِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ اِنَّہ‘ کَانَ مَنْصُوراً          ﴿بنی اسرائیل: ۳۳﴾ ترجمہ: اللہ نے جس جان کو حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو اس کے وارث کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ اور چاہیے کہ وہ قصاص میں زیادتی نہ کرے اس کی مدد کی جائے گی۔
      اس آیت میں مقتول کے وارث کو حق دیا گیا ہے کہ وہ قتل کابدلہ لے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ وہ زیادتی نہ کرے۔ زیادتی نہ کرنے کی ہدایت قرآن اسی وجہ سے دیتاہے کہ عام طور پر مقتولین کے وارث غصے سے بے قابو ہوکر قاتل کی بجائے اس کے کسی اور رشتے دار کو قتل کردیتے ہیں یا قاتل کے گھرانے کے کئی افراد جو سامنے آجاتے ہیں، ان سب کو قتل کردیتے ہیں۔ اسلام اس کو درست قرار نہیں دیتاہے۔ وہ صرف اس بات کی اجازت دیتاہے کہ قاتل نے جس طریقے سے قتل کیا ہے، صرف اسی طریقے سے قاتل کو قتل کیا جائے۔ یہ تمام معاملات اسلامی عدالت میں پیش ہونگے اور وہی عمل آوری کرے گی۔
_____________________ 
جاری ____
کسی انسان کو ناحق قتل کرنے کا گناہ _ قرآن کی روشنی میں :
قتل کے جرم کی سنگینی اور ہولناک انجام:

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے