خسر محترم حافظ عبداللہ مرحوم کے آخری لمحات
_آنکھوں دیکھا حال_
نعیم الرحمن ندوی
شہر عزیز مالیگاؤں میں لاک ڈاؤن کے دوران بہت کثرت سے اموات ہوئیں، شہر کی بہت سی اہم دینی و علمی، سماجی و سیاسی شخصیات نے داغِ مفارقت دیا اور شہر کے بیشتر افراد نے اپنے کسی نہ کسی عزیز و رشتہ دار کو کھودیا؛ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ *پورا شہر غم میں ڈوبا ہوا ہےـ* راقم کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ بہتیرے عزیز و رشتہ دار الوداع کہہ کر سفرِ آخرت پر چل دیئے لیکن سب سے زیادہ جن کے جانے کا غم و افسوس ہوا، طبیعت پر سب سے بڑا اثر ہوا؛ وہ ہیں *خسر مرحوم حافظ عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ*
شادی کے بعد چھ سالوں کے دوران آپ کا حُسنِ معاشرت و صفائی معاملات رہ رہ کر یاد آرہے ہیں، راقم ؛ تراویح میں قرآن پاک سنانے، یاد کرنے کی مشغولیت کی وجہ سے خیالات قلم انداز کرتا رہا، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی اور دل؛ احساس کو قلمبند کرنے پر مجبور ہوگیا ہے بطورِ خاص آپ کے وہ لمحاتِ زندگی جو آنکھوں نے آخری دن، آخری لمحوں میں مشاہدہ کئے جو یقیناً ایمان افروز اور قابل قدر ہیں۔
ضبط کروں میں کب تک آہ!
چل میرے خامہ بسم اللہ
➖➖➖
29 شعبان 1441 مطابق 24 اپریل 2020 جمعہ کا دن تھا، صبح ہی سے طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی، اہل خانہ سبھی آگئے، فون کرکے بلالئے گئے، حافظ جی کو بھی احساس ہوچکا تھا کہ اب چلے جانا ہے، خدمتِ خلق اور بے کس و بے سہارا کا مضبوط سہارا بننا گویا آپ کی طبیعت کا حصہ تھا، ایک ضعیف العمر، دور کے رشتہ دار، آنکھوں سے قدرے معذور، گھر کے صحن میں چارپائی پر دراز *ممتاز ماموں* کے متعلق بیٹوں کے ہوتے ہوئے ہم سارے دامادوں کو بلا کر خاص ان کے تعلق سے وصیت کی، حسنِ اخلاق کی تلقین کی، کہا کہ تم لوگ اُن (ممتاز ماموں) سے کہنا *عبداللہ جارہا ہے، تم ابھی رہوگے لیکن غم، فکر ذرا مت کرنا، اپنا ہی گھر سمجھ کر رہنا۔*
ہاسپٹل لے جانے کے لئے افراد خانہ نے اصرار کیا لیکن وہ بضد رہے کہ نہیں کچھ تکلیف نہیں ہے اب کہیں نہ لے جاؤ، وقفہ وقفہ سے گھر والوں کو تلقین کرتے رہے کہ دیکھو میرے چلے جانے سے تم لوگ رونا مت، صبر کرنا، تقسیمِ وراثت شریعت کے مطابق کرنا وغیرہ وغیرہ
دوپہر میں جمعہ کے بعد راقم نے سوچا کہ عیادت بھی کرلیں گے اور تراویح کا سوا پارہ اہلیہ کو سنا بھی دیں گے۔ ان کی خدمت میں پہنچا، کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھا رہا، اس درمیان ان کی زبان سے بڑی اچھی اچھی دعائیں جاری ہوگئیں اور تکلیف کے عالم میں بھی پورے ہوش و حواس میں دعائیں کرتے رہیں، اسی درمیان یومِ جمعہ کی مناسبت سے پوری سورہ کہف سنی، سورہ یاسین سنا، صبح سے اپنے حافظ بچوں کو اپنے پاس بٹھاکر قرآن پاک کی تلاوت سنتے رہے۔
بیٹے بیٹیاں بار بار کہتے رہے کہ ابو جی کچھ تھوڑا کھانا کھا لو؛ ان کے بار بار اصرار پر بڑی شفقت سے کہا کہ *بیٹا! اب تم لوگ کیا کھانا کھلاؤگے، اب تو میں جنت کا کھانا کھاؤں گا۔ ........... یہ سن کر سب کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔* اس کے باوجود راقم الحروف نے باصرار اپنے ہاتھوں سے آبِ زمزم پلایا، کچھ دوسرے مشروب چمچے سے پلائے، اس درمیان ان سے باتیں ہوتی رہیں، بڑی حیرت ہوئی کہ اس آخری کھانے اور آخری لمحات میں بھی دعاؤں کا اہتمام اور عقل و ہوش کی سلامتی پوری طرح باقی رہی، موت کی گھبراہٹ سے امن رہا، چہرے پر بشاشت و اطمینان چھایا رہا؛ محسوس ہوا کہ یہ ان کے مضبوط ایمان کی دلیل، قرآن پاک کا فیض ہے اور اللہ پاک کی خصوصی رحمت شاملِ حال ہے۔
کچھ دیر کے بعد ؛ افراد خانہ کی لا الہ الا اللہ کی تلقین کے ساتھ روحِ حافظ عبداللہ قفصِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
😢😢
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا کما ینقی الثوب الأبيض من الدنس وباعد بینہ وبین خطایاہ کما باعدت بین المشرق والمغرب.
آنکھوں نے کسی عزیز کی روح پہلی بار نکلتے دیکھا، یہ منظر بار بار آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور زندگی کی بے حقیقتی اور موت کی حقیقت بہت واضح انداز میں سامنے آتی ہے کہ
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِؕ ۞
ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
➖➖➖➖
*آپ کا نمایاں وصف :*
قرآن کریم سے آپکی وابستگی بڑی گہری رہی ہے، آپ نے عربی زبان و ادب مولانا عبدالحمید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا تھا، بطورِ خاص قرآنی عربی سے کافی شغف تھا، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور گفتگو میں حالات حاضرہ پر بیشتر آیاتِ قرآنی سے استشہاد کرنا ناچیز کو بہت متاثر کرتا تھا، حافظ صاحب حافظ قرآن تھے، تدریس سے وابستہ نہیں تھے، تجارت پیشہ تھے لیکن اس معاملہ میں ان میں *ایک عالمانہ شان محسوس ہوتی تھی،* چونکہ فکرِ قرآنی و نظرِ ایمانی حاصل تھی اس لئے فکر و نظر میں بہت کم کسی صاحبِ علم سے مرعوب ہوتے تھے۔
*تجارت کا پیشہ :*
آپ نے معاش کے لئے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزق حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ استوار رکھا۔ تجارت میں اسلامی اصولوں کو خوب اپنایا، سچائی اور امانت داری کا خوب خیال رکھا، غریب گاہکوں اور اہلِ علم طبقہ کی خاموش امداد آپ کا امتیازی وصف رہا ہے۔ اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ آپ درج ذیل بشارت کے حقدار ہوں۔
التاجرُ الصدوقُ الأمینُ مع النبیین والصدیقین والشہداء. ترجمہ: *سچا امانت دار تاجر آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔* (ترمذی،ج۳،ص۱۴۵)
آپ نے تمام بیٹیوں کو عالمہ بنایا، حسن معاشرت کی بڑی اچھی تربیت کی، اور خود تمام دامادوں کے ساتھ مثالی سلوک برتا، راقم الحروف کے ساتھ بھی شفقت کا خصوصی معاملہ رہا، جہاں وہ اپنی اولاد کے حق میں اوروں کے لئے قابلِ رشک باپ تھے وہیں ہمارے لئے قابلِ رشک خسر بھی تھے، آپ کے انتقال پر جیسے بچے بچیوں کی آنکھیں اشک بار تھیں، دامادوں پر بھی غم کا گہرا اثر رہا، ان کی آنکھیں بھی آنسو بہاتی رہیں، خدمت میں بیٹوں کے شانہ بشانہ رہے۔
آپ نے تمام بیٹوں کو حفظ قرآن سے جوڑا اور حفظ کی پختگی پر بھی زور دیتے رہے، آج یہ حال ہیکہ غم کے اس رمضان میں بھی چاروں کے چاروں بیٹے تراویح میں قرآن پاک برابر سنا رہے ہیں۔
اللہ پاک آپ کی طرح ہمارا بھی خاتمہ بالخیر مقدر فرمائے، آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے اخلاق و کردار میں مرحوم والد بزرگوار کی تربیت کو باقی رکھے۔
آمین یا رب العالمین
🩸🩸🩸
0 تبصرے