# سماج سدھار مہم مالیگاؤں (2)
نشہ اور مُنَشِّیات
پہلی قسط
ہمارے شہری سماج کو، ہمارے نوجوان طبقے کو جو برائی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ان میں سب سے پہلی برائی نشے کی ہے، وہ نشہ شراب کا ہو یا بیڑی، سگریٹ، گٹکا، تاڑی، شمپین، چرس اور بھنگ کا ہو۔ ہر قسم کا نشہ ذہن و دل، عقل و فکر ہر ایک کیلئے ناسور ہے، جو جسمانی، روحانی اور معاشی و اقتصادی ہر اعتبار سے شدید نقصان دہ ہے۔
ہم تین قسطوں میں نشوں سے متعلق قرآن و حدیث کی ہدایات جانیں گے اور میڈیکل سائنس کی جدید تحقیقات کا بھی مطالعہ کریں گے۔ ان شاء اللہ
نشہ؛ عقل اور معاشرت کو تباہ کر رہا ہے:
اسلامی شریعت کے احکام بنیادی طور پر جن پانچ مقاصد پر مبنی ہیں ان میں دین، جان، نسل اور مال کی حفاظت کے ساتھ عقل کی حفاظت بھی شامل ہے۔ عقل اور فکر و نظر کی قوت کو باقی اور توانا رکھنا اور اسے ہر قسم کے نقص و خلل سے محفوظ رکھنا اسلام کے اساسی مقاصد میں سے ہے۔ شراب، منشیات اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کو شریعت اسلام میں حرام، ناپاک اور مہلک اس لئے بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان؛ انسانیت کے جامے سے باہر آجاتا ہے اور پھر وہ سب کچھ کر گذرتا ہے جس سے انسانیت اور شرافت شرم سار ہوجائیں۔ ہمارے موجودہ سماج میں نشہ آور چیزوں کا استعمال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور خاص طورپر نوجوانوں کا طبقہ اس لت میں بری طرح گرفتار ہوتا جارہا ہے، صورت حال اس قدر تشویش ناک ہے کہ ہزارہا ہزار گھر تباہی کے دہانے پر ہیں، خاندان بکھر رہے ہیں، طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے، اخلاقی بے راہ روی عام ہوگئی ہے، اور امت کے مستقبل کے معمار؛ جوان اپنا سب کچھ داؤں پر لگاتے جارہے ہیں اور انہیں اپنے طرز عمل کی ہولناکی اور سنگینی کا احساس تک نہیں ہے۔
____ شراب نوشی و نشہ :
____ قرآن کریم کی روشنی میں ____
اسلام جو ہر اعتبار سے فطرت سلیمہ سے ہم آہنگ ہے، اس نے بھی شراب پر بندش لگائی ہے، نزول قرآن کے وقت کا عرب معاشرہ شراب نوشی میں آخری حد تک غرق تھا، اس لئے قرآن کریم میں بتدریج کئی مرحلوں میں شراب کو قطعی حرام قرار دیا گیا ہے۔
1) پہلے مرحلے میں شراب و نشہ کو (رزق غیر حسن) خراب اور بری چیز بتایا گیا۔ (النحل /۶۷)
2) دوسرے مرحلے میں شراب و نشہ میں (اثم کبیر) بڑی خرابی کا ذکر کرکے اس کے نقصانات کی کثرت کو بیا ن کیا گیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ (البقرۃ/۲۱۹)
3) تیسرے مرحلے میں نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم آیا۔ (النساء/۴۳)
شراب نوشی کے مضر اثرات ان تین مرحلوں کے ذریعہ دلوں میں راسخ کئے جانے کے بعد قرآن نے اگلے مرحلے میں اسے قطعی طور پرحرام قرار دے دیا اورصاف فرمادیا :
یاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۹۱ وَاَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۹۲
ترجمہ : اے ایمان والو! شراب، جوا، مورتیاں اور جوئے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو ، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے ، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے، اب بتاؤ کہ کیا تم ان چیزوں سے باز آجاؤ گے؟ اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کاکہنا مانو اور نافرمانی سے بچتے رہو، اور اگر تم اس حکم سے منہ موڑوگے توجان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے اللہ کے حکم کی تبلیغ کردیں۔
ان آیات میں انتہائی حکیمانہ اور قطعی انداز میں مختلف الفاظ و اسالیب کے ذریعہ شراب کے حرام ہونے اور اسکی شناعت و قباحت آشکارا فرما دی گئی ہے۔
(۱) شراب کو بت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ، گویا یہ برائی شرک کے مانند ہے، چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا:
’’شراب کا عادی مجرم بت پرست کی مانند ہے۔‘‘
(۲) اسے نجاست و پلید قرار دیا گیا۔ (۳) اسے شیطانی عمل بتایا گیا۔ (۴) اس سے پورے طور پر بچنا ضروری قرار دیا گیا۔ (۵) اس سے اجتناب کو فلاح کا ذریعہ بتایا گیا۔ (۶) اس کی حرمت کا سبب واضح کیا گیا کہ اس سے باہم عداوت و نفرت پیدا ہوتی ہے۔ (۷) واضح کیا گیا کہ نشے کا عادی بناکر شیطان تم کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کرتا ہے۔ (۸) اللہ نے زجر و توبیخ کے انداز میں فرمایا ہے کہ جب شراب کی لعنت اتنی خرابیوں کا مجموعہ ہے تو کیا پھر بھی تم اس سے باز نہیں آؤگے؟ (۹) اللہ و رسول کی اطاعت فرض ہے اور اس کا تقاضا شراب و نشہ سے مکمل گریز ہے۔ (۱۰) سختی سے فرما دیا گیا کہ یہ حکم الٰہی ہے، اس سے اعراض کروگے تو نتیجے کے ذمہ دار خود ہوگے، رسول کے ذمے حق پہونچانا ہے، وہ پہونچا چکے، ماننا تمہارے ذمے ہے، نہیں مانو گے تو خود نقصان اٹھاؤ گے۔
جب شراب کی حرمت کا یہ قطعی حکم شریعت کی طرف سے آیا تھا تو یک لخت تمام صحابہ نے شراب چھوڑ دی، مدینہ کی گلیوں میں شراب کے مٹکے توڑ دیئے گئے، سڑکوں پر شراب بہا دی گئی، چونکہ ان آیات میں بیداریٔ ضمیر کے لئے اور فطرت انسانی کوسلامت رکھنے کیلئے امتحاناً یہ سوال بھی اللہ نے کیا ہے کہ کیا اب بھی تم اتنی بری اور ناپاک شیطانی لعنت سے باز نہیں آؤگے؟ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ: اے پروردگار: ہم بازآگئے ، اب ہم کبھی شراب کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔
___ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ___
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات میں شراب، نشہ اور منشیات میں مشغول افراد کے لئے لعنت اور قباحت اور وعید کے الفاظ کثرت و صراحت کے ساتھ ملتے ہیں، ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
1) شراب نوشی ایمان کے نور سے محرومی ہے۔
ارشاد نبوی ہے :
’’شرابی؛ شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا۔‘‘
چنانچہ جو شخص شراب کو جائز سمجھ کر پیتا ہے وہ واقعی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، اور جو حرام سمجھتا ہے پھر بھی پیتا ہے وہ ایمان کے کمال سے محروم ہوجاتا ہے، اور من جانب اللہ نورِ ایمان اس سے سلب کرلیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نیکیوں سے اس کی طبیعت اچاٹ اور معاصی کی طرف راغب ہوجاتی ہے، پھر اس کا تعارف صاحب ایمان اور نیک انسانوں کے بجائے مے نوش اور شرابی کے لقب سے ہونے لگتا ہے، اور پھر اگر مے نوشی کی یہ عادت لت بن جائے تو انجام کار ایمان و یقین سے محرومی کا ذریعہ ہوجاتی ہے، انہیں تمام حقائق کو زبان نبوت میں اس بلیغ ، جامع اور مختصر تعبیر میں بیان کردیا گیا ہے کہ مے نوش، حالت مے نوشی میں مومن نہیں رہتا۔
2) شراب تمام فواحش اور خباثت کی جڑ اور اصل ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
’’شراب مت پیو، اس لئے کہ وہ شر کی کنجی ہے۔‘‘
حضرت عثمان غنیؓ کا ارشاد ہے:
شراب سے بچو ، وہ ہر گناہ کی جڑ ہے، پچھلی امتوں میں ایک عبادت گزار آدمی تھا جو عورتوں سے بالکل الگ رہتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اور اس نے اپنی باندی کواس کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ ایک معاملہ میں گواہی کے لئے آپ کی ضرورت ہے، اور اس بہانے سے اس شریف آدمی کو گھر کے اندر لے گئی، دروازہ بند کردیا، وہ عورت خود بے انتہا خوبصورت تھی، اس کمرے میں شراب کا مٹکا بھی تھا، اور ایک کم سن بچہ بھی تھا، عورت نے اس عابد سے کہا کہ اگر تم نجات اور رسوائی سے بچاؤ چاہتے ہو تو تین کاموں میں سے ایک کام کرنا ہوگا: (۱) یا تو شراب کا جام پیو (۲) یا اس بچے کوقتل کرو (۳) یا زنا کرو۔ اس عابد نے زنا اور قتل کو زیادہ سنگین اور شراب کو کم خطرناک سمجھ کر شراب پینا منظور کرلیا، شراب کا ایک جام پی کر ایسا مست ہوا کہ پھر جام پر جام پیتا چلا گیا، اور نشہ اس قدر چھا گیا کہ پھر بچے کو بھی قتل کیا اور زنا بھی کیا۔ شراب کی عادت انسان کو اسی طرح رسوا کرتی ہے اور بسا اوقات ایمان سے بھی محروم کردیتی ہے۔
معلوم ہوا کہ شراب اور نشے کی لعنت؛ بدکاری کا زینہ ہے، موجودہ دور میں حرام کاری اور بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ شراب نوشی ایک متعدی جرم ہے، یہ دوسرے بے شمار جرائم کا سبب بنتی ہے، یہ انسان کی خاندانی زندگی کو ملیا میٹ کرڈالنے والی چیز بھی ہے، شراب کے رسیا افراد کی ازدواجی زندگی جہنم بن جاتی ہے، ایسے لوگ خود بھی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوتے ہیں، اور ان کے اہل و عیال بھی اسی راہ پر چل پڑتے ہیں اسی لئے شریعت نے اسے ام الخبائث ( تمام برائیوں کی جڑ اور اصل) قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں الفاظ ہیں:
’’شراب تمام بے حیائیوں کی اصل اور بڑے گناہوں میں بدترین گناہ ہے، اور جس نے اسے پیا، ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں، خالہ اور چچی کے ساتھ بری حرکت کر بیٹھے۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ شراب کا نشہ انسان کو عقل سے اس طرح محروم کردیتا ہے کہ اس میں خیر و شر، اچھے برے، حتی کی بیوی اور بہن تک میں امتیاز کی صلاحیت باقی نہیں رہ جاتی۔
_____________________
جاری _______ اگلے ذیلی عناوین
1) منشیات کے فروغ میں کسی بھی قسم کی حصہ داری ملعون حرکت ہے
2) شراب گمراہی کا بڑا ذریعہ ہے
3) شراب نوشی کی ہولناک اخروی سزائیں
4) نشہ آور چیزوں کے استعمال کے ساتھ نمازیں قبول نہیں ہوتیں
0 تبصرے