برقع پوش بھیک مسلم خاتون بھیک مانگتے ہوئے



        جب میں دیکھتا ہوں کوئی برقع پوش مسلم خاتون بھیک مانگ رہی ہے، مسجد کے گیٹ پر کھڑی لوگوں سے سوال کررہی ہے، چھوٹے بچے ہیں تو ان کو ایک ہاتھ سے تھامے دوسرا ہاتھ پھیلائے لوگوں سے مانگ رہی ہے تو دل بہت دکھی ہوجاتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ کیا مسلم سماج اور خاتون کے رشتے دار ایسے بےغیرت بن گئے جو بھیک مانگنے کیلئے خاتون کو بچوں سمیت یوں بے سہارا چھوڑ دیا، جو مسجدوں کے دروازوں پر بچوں کو لئے بیٹھ جاتی ہیں!!!

      ______ ابھی جیسے ہی مغرب میں نماز پڑھنے کے لئے آیا تو ایک خاتون دو بچوں کو لیے مسجد کے گیٹ پر بیٹھی نظر آئی، برقع پوش اور دونوں بچے چھوٹے چھوٹے ادھر ادھر کھیلتے نظر آئے۔ دل پر ایک چوٹ لگی، چہرے پر اداسی چھا گئی اور وہی کیفیتِ بے چارگی عود کرآئی، کافی دیر تک غور کرتا رہا کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ سماج میں ایسی بے شمار خواتین بے سہارا ہیں، آخر کیوں؟ کیوں صاحبِ استطاعت مسلمان مرد ان عورتوں کا سہارا نہیں بنتے؟ 

حل کیا ہے؟ :
       بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اس کا حل کیا ہے اور کیوں ایسی سوالی عورتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے؟ آخر میں ایک بات ذہن میں آئی کہ مانگنے والی زیادہ تر خواتین مطلقہ یا بیوہ ہوتی ہیں ان کیلئے "نکاحِ ثانی کا رواج" ہی اس کا حل ہے۔ کیا صحابہ کے معاشرے میں جبکہ اُس وقت جنگیں بھی ہوا کرتی تھیں اور بہت بڑی تعداد میں عورتیں کسی بھی وقت بے سہارا وبے شوہر ہوجایا کرتی تھیں۔ لیکن مسجدِ نبوی کے دروازے پر "مانگنے والی صحابیات" کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ "دوسرا، تیسرا اور چوتھا نکاح" بلاتکلف و بلاتردد سماج میں رائج تھا اور عورتیں اس کو معیوب بھی نہیں سمجھتی تھیں۔ اپنی سوتنوں کو برداشت کرتی تھیں۔ اس کی مثال 9 سے 11 ازواجِ مطہرات کا ایک نبی کی زوجیت میں خوش دلی سے رہنا ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے