ساتویں اور آخری قسط _ کریم رب کی طرف کیسے پلٹیں؟



انسان بشر ہے، با ہٹادیں تو شر ہی بچتا ہے۔ خیر کے ساتھ شر بھی انسان سے چمٹا ہوا ہے۔ خیر کا ملہم دائیں طرف ہے تو شر کا وسواس بھی بائیں طرف اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ وہ ایسا ہے کہ کبھی چھٹی نہیں لیتا، ان تھک کوشش انسانوں کو بہکانے کی کرتا رہتا ہے اور پھر کبھی کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ انسان بہرحال ضعیف ہے، نفس و شیطان دو دو دشمنوں سے مقابلے میں کبھی شکست بھی کھاجاتا ہے اور گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ جس طرح خیر کے کاموں میں آگے بڑھتا ہے تو بہت اونچی اڑان بھر جاتا ہے ایسے ہی شر کی کھائی میں گرتا ہے تو بہت گہرائی میں گر پڑتا ہے۔ کسی نے اس کے خیر کی اڑان اور شر کی پستی کی خوب عکاسی کی ہے ؛
اٹھے تو شہپرِ یزداں، گرے تو شیطاں ہے
بشر کے حوصلۂ خیر و شر کو کیا کہئے !
       اگر یہ بشر کبھی شہوت کے گناہ میں مبتلا ہوجائے تو کس طرح اپنے سمیع و بصیر، علیم و خبیر خالق و مالک کو راضی کرے؟ اس کی مغفرت کو پاکر جنت بھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔ ___ وہ بڑا کریم ہے اُس نے اِس سمت خاص رہنمائی کی ہے، گناہِ شہوت کا نام لیکر رہبری کی کہ کس طرح توبہ کرے اور دوبارہ تقوی و طہارت پر آجائے۔

پہلے مغفرت پھر جنت :
     وہ اپنے بندوں کو راست جنت کی طرف نہیں بلاتا، پہلے گناہوں سے معافی اور مغفرت کی آواز لگاتا ہے اور گنہگار، شرمسار بندوں کو اپنے سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ کہتا ہے ؛
سارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضها السموات والأرض أعدت للمتقين ۞ اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے تیزی کرو جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ ایسے پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

     وہ پرہیزگار کون ہیں ان کے اوصافِ جمیل ذکر کئے۔
الذين ینفقون فی السراء والضراء والكاظمين الغيظ والعافين من الناس واللہ یحب المحسنین ۞ جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
 
      اس عظیم پروردگار کی بڑی رحمت ہے کہ اس نے اس امتحانِ شہوت میں ناکام ہونے، بےحیائی میں پڑکر نادم ہونے، رب سے ڈرنے اور سر جھکا کر معافی مانگنے والوں کو بھی پرہیزگاروں میں شامل کرلیا۔
والذين إذا *فعلوا فاحشة* أو ظلموا أنفسهم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون ۞ ترجمہ: اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی *کوئی بےحیائی کا کام* کر بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا؛ ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔ (آل عمران: 135)

      کریم پروردگار نے اعلان کیا کہ ان کی جزا و انعام پہلے گناہوں سے مغفرت ہے، پھر جنت ہے۔
أولئك جزاءھم مغفرۃ من ربھم و جنات تجری من تحتھا الأنهار خالدین فیھا ونعم اجر العاملین ۞ ترجمہ: یہ ہیں وہ لوگ جن کا صلہ ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے، اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہوں گے، جن میں انہیں دائمی زندگی حاصل ہوگی، کتنا بہترین بدلہ ہے جو کام کرنے والوں کو ملنا ہے۔

      یہ ترتیب کہ پہلے گناہوں سے معافی و مغفرت اور پھر جنت؛ خطاکار شرمسار بندے کو اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونے دیتی، اگر بندے کے دل میں کسی درجے میں بھی اپنے کریم رب کی عظمت، اس سے حیا اور اس کا پاس و لحاظ ہو!!

نمازِ توبہ اور دعاء ماثورہ :
      مذکورہ بالا دل کی ندامت، زبان کے استغفار کے ساتھ رب کے حضور کھڑے ہوکر دو رکعت "صلاة التوبۃ" کا اہتمام بھی ایسے وقت کرلیا جائے، اور سلام سے قبل آخری دعا "دعاء ماثورہ" خوب توجہ اور معنی کا دھیان رکھ کر پڑھا جائے۔ عجیب بات ہے کہ جس مضمون کا اہم ترین فقرہ؛ آیت بالا میں ذکر کیا گیا ہے، بندے کی جس دلی کیفیت اور زبانی اقرار کا بیان ہوا ہے، ہو بہو وہی فقرہ، اسی معنی میں اس دعا میں ہے ؛ "ولا یغفرُ الذنوبَ إلا أنت" میرے گناہوں کو تو ہی معاف کرسکتا ہے۔ (مخلوق کے بس کی بات نہیں، اگر وہ اس سے آگاہ ہوجائیں تو ذلیل کئے، سزا دیئے بغیر نہیں رہیں گے۔)
 دعاء ماثورہ : __ «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت،‏‏‏‏ فاغفر لي مغفرة من عندك،‏‏‏‏ وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر (گناہ کر کے) بہت زیادہ ظلم کیا ، گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بلا شک وشبہ تو ہی ہے۔

اللہ حفیظ و مقیت سے دعا ہے کہ ہر ظاہر وباطن ہر گناہ سے حفاظت و نگہبانی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے