چوتھی قسط _ اللہ ہر نیک نیت بندے کو بچاتے ہیں



اللہ ہر نیک نیت بندے کو بچاتے ہیں :
جس طرح اللہ تعالی نے یوسف علیہ السلام کی خصوصی مدد و نصرت فرما کر فحش اور زنا سے محفوظ فرمایا اور بڑی شان سے اعلان کیا ؛ ___ کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء إنه من عبادنا المخلصين. ترجمہ : ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان سے برائی اور بےحیائی کا رخ پھیر دیں۔ بیشک وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے تھے۔
  اسی طرح اللہ تعالی شہوت کے امتحان میں ہر اس بندے کی پوری مدد فرماتے ہیں، خصوصی حفاظت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جس کا عزم مصمم بچنے کا ہو، جس کی نیت و ارادہ اس سے دور ہونے کا ہو لیکن اگر نفس میں چور ہو اور خیال ہو کہ "جب موقع ملے چوکا لگائیں گے" تو "نیتوں کا خبیر" اسے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر ایسے واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جس کا ذکر شروع مضمون میں کیا گیا۔ اللہم احفظنا منہ

بدنیتی سے توفیق سلب ہوجاتی ہے :
       کوئی بھی عمل پہلے دل کے خیال و ارادے سے گزرتا ہے۔ پہلے خیال آتا ہے، ذہن و دل میں اس کی سوچ اٹھتی ہے اس کے بعد خیر و شر کا فعل صادر ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ بندے اور اس کے دل کے اچھے برے ارادوں کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ اگر بندہ نیکی پہ چلنے کا عزم وارادہ رکھتا ہو پھر "لمة من الشيطان" یعنی شیطان کے تصرف سے برا خیال آتا ہے تو اللہ پاک؛ برے خیال کے نتیجے یعنی برے عمل کے درمیان حائل ہوکر اس بندے کو گناہ سے بچا لیتے ہیں۔ ایسے ہی اس کے برعکس اگر دل میں گناہ کی چاہت رکھتا ہو، موقع کی تلاش میں رہتا ہو، نیکی سے بیزار ہو، پھر "لمة من الملک" یعنی فرشتے کے خیر الہام کرنے کی وجہ سے خیر کا خیال پیدا ہوا بھی تو اللہ پاک اس کے ارادے اور عملِ خیر کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور اس بندے کو اچھے عمل کی توفیق نہیں ملتی۔ اسی بات کو اللہ پاک نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا ہے؛ ____ واعلموا أن اللہ یحول بین المرء وقلبہ... ترجمہ: اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے۔ (الأنفال: 24)

     اس آیت کی تفسیر میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں۔ __ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کا تقاضا پیدا ہو، اور وہ طالبِ حق کی طرح اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور گناہ کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں اور وہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، اسی طرح اگر کسی کے دل میں حق کی طلب نہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرتا ہو تو اگر کبھی اس کے دل میں نیک خیال آبھی جائے تو اسے نیکی کی توفیق نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کے دل میں جو خیال آیا تھا وہ کمزور پڑجاتا ہے اس پر عمل کا موقع نہیں ملتا۔
_____________________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے