تیسری قسط شہوت کیا ہے اور کیوں رکھی گئی؟


 
  شہوت کے معنی خواہش، حصول لذت کا شوق ہے۔ دو قسم کی شہوت ہوتی ہے، شہوتِ بطن (پیٹ) جسے اشتہا سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے، مجھے کھانے کی اشتہا نہیں ہے۔ اور دوسری قسم شہوتِ فرج (شرمگاہ) ہے جسے خواہشِ جماع یا جنسی تقاضا بھی کہا جاتا ہے۔ شہوت بھی اللہ پاک کی تخلیق ہے، جس طرح اللہ پاک نے مادی چیزیں پیدا فرمائیں ایسے ہی نظر نہ آنے والی چیزیں، اچھے برے جذبات و خواہشات بھی پیدا کی ہیں اور بامقصد پیدا کی ہیں۔ پروردگار کی کوئی تخلیق بےکار و بے مقصد نہیں ہے، اللہ سبحانہ کوئی بھی چیز بے وجہ پیدا کرنے سے پاک ہے۔ نفس انسانی میں اللہ پاک نے دونوں چیزیں رکھی ہیں۔ فجور اور تقوی یعنی بدی اور نیکی دونوں کا میلان رکھا، ساتھ ہی بھلے اور برے کی تمیز بھی پیدائشی طور پر رکھ دی کہ فجور و بدکرداری بری چیز ہے تو تقوی و پرہیزگاری اچھی چیز ہے۔ اور اس کا مقصد اس بات کا امتحان لینا ہے کہ انسان تقوی کو اپناتا ہے یا فجور کو؟
اللہ پاک کا ارشاد ہے؛ __ ونفس وما سواها • فألهمها فجورها وتقواها • قد أفلح من زكاها • وقد خاب من دساها • ترجمہ: اور قسم ہے انسانی نفس کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔ (الشمس: 7_10)

     فجور کا اہم حصہ شہوتِ فرج یعنی شرم گاہ کی خواہشِ جماع ہے، (سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکثر مایدخل الناس النار قال الفم والفرج ) یہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو کبھی پورے پورے تقوے و پرہیزگاری کا مقابل بھی شمار کیا گیا ہے۔ نیک لوگوں کو جہاں دوسرے اَور امتحان سے گزرنا ہوتا ہے وہیں شہوت کے امتحان سے بھی گزارا جاتا ہے۔ اور نیت و ارادہ اگر بچنے کا ہو تو اللہ پاک کی خصوصی مدد شامل حال ہوجاتی ہے، حفاظت کا خصوصی سامان مہیا کیا جاتا ہے اور ایسے بندوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال "احسن القصص" قصۂ یوسف میں موجود ہے۔ یوسف علیہ السلام کو شہوت کا امتحان پیش آیا اور "امرأة العزیز" کی طرف سے شہوت کے گناہ یعنی زنا میں ملوث ہونے کا پورا موقع فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے فجور کے مقابل تقوی و پرہیزگاری کو اختیار کیا۔ "نفس امَّارۃ" نے "امرأة العزیز" کو شہوت کے آخری مرحلے خواہشِ زنا تک پہنچایا، اسی نفس نے یوسف علیہ السلام کے اندر بھی زور مارا اور شہوت کو بڑھکانے کی کوشش کی، عزیز کی بیوی کی طرف مائل کیا لیکن اللہ پاک نے یوسف علیہ السلام کے تقوے کے ارادے و نیت کی بنیاد پر خصوصی مدد فرمائی۔ اللہ پاک نے اپنے کلام میں اس کا یوں ذکر فرمایا ؛ ____ و لقد ھمّت بہ وھمّ بہا لو لا أن رّأی برھان ربّہ... ترجمہ: اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا، اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔ (یوسف :24)
      اگر حضرت یوسف ؑ اپنے رب کی طرف سے دلیل نہ دیکھ لیتے تو ان کے دل میں بھی اس عورت کی طرف جھکاؤ پیدا ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ایک دلیل نظر آگئی کہ اس عمل کے گناہ ہونے کا اس وقت طاقتور احساس جاگا جس کی طرف انہوں نے دھیان رکھا اور گناہ سے محفوظ رہے۔ یا اس وقت ان کو اپنے والد ماجد حضرت یعقوب ؑ کی صورت دکھا دی گئی۔ اسی لیے اس عورت کے بارے میں شروع میں ان کے دل میں تھوڑا سا میلان پیدا ہوا جو ایک بشری تقاضا ہے لیکن اپنے رب کی دلیل دیکھنے کے بعد وہ غیر اختیاری جھکاؤ سے آگے نہیں بڑھا۔
        حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس کی بہترین مثال دی ہے۔ فرمایا: جیسے پیاس کی حالت میں روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر طبعی طور پر اس کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن روزہ توڑنے کا بالکل ارادہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر اختیاری طور پر حضرت یوسف ؑ کے دل میں بھی میلان پیدا ہوا مگر دل کے تقاضے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنے آپ پر قابو رکھا اور گناہ سے بچے رہے۔
      یوسف علیہ السلام نے شہوت کے مقابل تقوی اختیار کیا اور اسی تقوی کی نیت، گناہ سے بچنے کے عزم مصمم پر اللہ تعالی نے آپ کی خصوصی مدد فرمائی، اس پر انہیں جیل بھیجا گیا، پریشانیاں آئیں، سالہاسال اس پر صبر کیا اور تقوی پر ثابت قدم رہے، اور آخرکار انعامات الہیہ کے مستحق قرار پائے۔ اسی بات کو یوسف علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ؛ — انہ من یتق و یصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین. (يوسف :90) ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ جو شخص تقوی اور صبر سے کام لیتا ہے، تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
_____________________ 

جاری -----------
اللہ ہر نیک نیت بندے کو بچاتے ہیں :
بدنیتی سے توفیق سلب ہوجاتی ہے :


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے