دوسری قسط _ شہوانی اور پاکیزہ ہر دو جذبات حکمت اور قدرتِ الٰہی کی نشانی


 

شہوانی اور پاکیزہ ہر دو جذبات
حکمت اور قدرتِ الٰہی کی نشانی
اللہ سبحانہ نے رشتے داریاں بنائی، مردانہ اور زنانہ تعلقات جوڑے اور آپس کے حقوق طے کئے۔ ان رشتوں میں خاص مرد کیلئے خاتونی رشتوں میں تنوع رکھا جو اس کی حکمتِ کاملہ کا بہترین نمونہ ہے۔

صحیح الفطرت ہونے کی علامت :
مرد کی ایک ہی نگاہ ہے؛ ماں پر پڑتی ہے تو احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، بہن پر پڑتی ہے تو مہر و شفقت کی کیفیت ہوتی ہے، بیٹی پر پڑتی ہے تو شفقت کے ساتھ پاکیزہ محبت اٹھتی ہے اور جب بیوی پر پڑتی ہے تو محبت و مودت اور رحمت کے ساتھ شہوانی جذبات کی بھی آمیزش ہوجاتی ہے۔ اس آخری رشتے کے پس منظر میں مذکورہ جذبے کا اضافہ عظیم حکمتِ الہیہ کا حصہ اور غالب قدرتِ الٰہی کی نشانی ہے کہ اسی رشتے سے نسل انسانی کو آگے بڑھانا اور جاری رکھنا ہے، اس جذبے کے بغیر مطلوبہ چیز ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے رشتوں میں تقدس و احترام، رحمت و شفقت، مہر و محبت تو ہوتے ہیں لیکن شہوت اور جنسی خیالات سے پاک ہوتے ہیں، گویا ان عورتوں سے شہوت نہیں جاگتی، ان سے شہوت نہیں ہوتی۔ یہی فطرت ہے اور ان متنوع کیفیات و جذبات کا پایا جانا صحیح الفطرت و سلیم الفطرت ہونے کی علامت بھی ہے۔
    اللہ پاک نے اسی فطری تقاضے کو حکم الہی میں ڈھالا اور یوں بیان فرمایا ؛ ____ حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم وأخواتكم وعماتكم وخالاتكم وبنات الأخ وبنات الأخت وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة وأمهات نسائكم وربائبكم اللاتي في حجوركم من نسائكم اللاتي دخلتم بهن فإن لم تكونوا دخلتم بهن فلا جناح عليكم وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم وأن تجمعوا بين الأختين ... (سورۃ النساء:23) 
ترجمہ: تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو۔ نیز وہ عورتیں (تم پر حرام ہیں) جو دوسرے شوہروں کے نکاح میں ہوں۔
      اس آیت میں اللہ پاک نے جن رشتوں سے نکاح منع فرمایا وہ عین مطابقِ فطرت ہیں، ان سے شہوت نہیں جاگتی، ان سے پاکیزہ جذبات ہوتے ہیں اور پاکیزگئ جذبات اور ستھرے خیالات ہی ان سے متعلق مطلوب ہیں۔ ایک سلیم الفطرت انسان ان رشتوں سے تعلقِ زوجیت قائم کرنا پسند نہیں کرتا۔ 

جذبۂ شہوت کے آگے انسانی بے بسی
 اور اس کا علاج :
       شہوت یا جنسی خواہش وہ طاقتور جذبہ ہے اور نفس کا ایسا میلانِ شدید اس کے پورا کرنے میں ہوتا ہے کہ انسان مقابلے میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر خوف خدا، فطری شرم و حیا مانع نہ ہو تو پھر اس تقاضے کی تکمیل میں ماں بہن کے رشتوں کا تقدس بھی پامال کردیا جاتا ہے،مغربی تہذیب اور یورپی ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ خالقِ انسان اللہ پاک نے اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا "وخلق الانسان ضعیفاً : اور انسان کمزور پیدا ہوا ہے۔ (النساء: 28)
      اس آیت کی تفسیر میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ _ انسان فطری طور پر جنسی خواہش کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ خواہش جائز طریقے سے پورا کرنے سے نہیں روکا ؛ اور نکاح کو اس کے لئے آسان بنادیا ہے۔
 
      اسی لئے اللہ پاک نے اس شہوانی ضرورت اور جنسی تقاضے کی تکمیل کے لیے نکاح جیسا حلال راستہ بنایا اور اسے اپنانے کی تاکید فرمائی۔ اس کے رسول ﷺ نے بیویوں کو تاکید کی کہ جنسی تقاضوں کی تکمیل کے لیے شوہر جب بلائے، جس وقت بلائے لبیک کہے حتی کہ ضروری کاموں پر اس کو ترجیح دی۔ ارشاد ہے "اگر عورت چولہے پر روٹی پکارہی ہو اور اسی حال میں شوہر اسے ہمبستری کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ کام چھوڑ کر شوہر کے پاس آجائے۔"
      یہ جذبہ کبھی بھی بیدار ہوجاتا ہے، آدمی راستہ چل رہا ہے، خیالات پاکیزہ ہیں کہ اچانک شیطان جال پھینکتا ہے، مرد کی نگاہ راہ چلتی خاتون پر پڑتی ہے شہوت بیدار ہوجاتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے نبی علیہ السلام کی تاکید ہے کہ گھر کی منکوحہ سے اپنا تقاضا پورا کرلے۔ خود آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا کیا، اس طرح امت کو عملی تعلیم بھی دے گئے۔ جو بے نکاح ہیں ان کی شہوت کا زور توڑنے کیلئے روزے کی تلقین فرمائی۔ (فعلیہ بالصوم فإنہ لہ وجاء)
_____________________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے