شہوت کے ایسے طاقتور تقاضے سے بچنے کیلئے جو نفس کے ذریعے بیدار ہوا ہے کون سی چیز ہوسکتی ہے؟ کس چیز سے اس سرکش گھوڑے پر لگام کسی جاسکتی ہے، کس تدبیر سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ اس جانب کلام الہی رہنمائی کرتا ہے۔ ارشادِ باری ہے؛
— واما من خاف مقام ربه ونھی النفس عن الھوی. ترجمہ: وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا ہے اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا ہے۔ (النازعات: 40)
آیت کریمہ میں اللہ پاک نے نفس کو بری خواہشات سے روکنے سے پہلے جو بات ذکر فرمائی وہ یہ کہ بندہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا ہے، مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ‘ اس سے مراد خدا کے حضور پیشی سے ڈرنا ہے۔ سورۂ مطففین میں اس کی تفصیل یوں آئی ہے: __ ألا يظن أولئك أنهم مبعوثون ليوم عظيم يوم يقوم الناس لرب العالمين. (المطففین: ۴-۶) ترجمہ : کیا وہ یہ گمان نہیں رکھتے کہ وہ ایک بھاری دن کی حاضری کے لیے اٹھائے جانے والے ہیں؟ جس دن لوگ خداوند عالم کے حضور پیشی کے لیے اٹھیں گے!
یہی خوف و اندیشہ ہے، یہی پیشی کا ڈر ہے جو انسان کو خواہشات کی پیروی سے روکتا ہے۔ خالق کے حضور کھڑے ہوکر جواب دہی کا احساس انسان کے بدن پر لرزا طاری کردیتا ہے۔ یہ یقین جس درجہ ہوگا نفس انسانی اسی قدر قابو میں ہوگا۔ یہ ڈر نہ ہو تو نفس کو خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
انسان آج بھی خالق کے سامنے ہے :
کیا اس دنیا میں انسان اپنے خالق کی دسترس میں نہیں ہے؟ کیا وہ اسے ہر وقت دیکھ نہیں رہا ہے؟ __ انسان اسی دھوکے میں ہوتا ہے کہ وہ تنہا ہوکر اکیلا ہے۔ اسے اب کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ اللہ پاک نے اس دھوکے سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا؛
___ الم یعلم بأن الله یرٰی . ترجمہ: کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ (العلق: 14)
اس یقین کا استحضار کرنا یعنی بتکلف دھیان اور توجہ میں رکھنا انسانوں سے مطلوب ہے، نبی علیہ الصلوۃ والسلام اللہ پاک کے سننے، دیکھنے والے اور ظاہر وباطن کے جاننے، خبر رکھنے والے ہونے کا اقرار ان دعائیہ الفاظ میں فرماتے تھے؛
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ وَلَا یَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ءٌ مِّنْ اَمْرِیْ... اے اللہ! بےشک آپ میری باتوں کو سن رہے ہیں، میرے اس جگہ ہونے کو دیکھ رہے ہیں اور میری پوشیدہ و ظاہر ہر چیز سے باخبر ہیں، کوئی چیز آپ سے چھپی ہوئی نہیں۔
کلام الہی میں اس بات کی بڑی صاف وضاحت ملتی ہے اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام خود مخاطب ہیں؛
__ وما تكون في شأن وما تتلو منه من قرآن ولا تعملون من عمل إلا كنا عليكم شهودا إذ تفيضون فيه... ۞ اور (اے پیغمبر) تم جس حالت میں بھی ہوتے ہو اور قرآن کا جو حصہ بھی تلاوت کرتے ہو اور (اے لوگو) تم جو کام بھی کرتے ہو، تو جس وقت تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو ہم تمہیں دیکھتے رہتے ہیں... (يونس :61)
وہ ہر وقت کا بصیر، ہر وقت کا علیم اور ہر وقت کا خبیر ہے۔ انسان بدنظری کر رہا ہوتا ہے اور اس کا خالق اس کی غلط نگاہی پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ انسان اس سے لاعلم بنا رہتا ہے حالانکہ اس احساس سے بےخبری ہی تنہائی کے گناہ میں مبتلا کرتی ہے جس کا انجام افسوس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے؛
میری نظر پہ ؛ اُس کی نظر پاسباں رہی
افسوس اس احساس سے کیوں بے خبر تھا میں
انسان تنہا ہوکر بھی اکیلا نہیں ہوتا، اس کے ساتھ درجنوں فرشتے ہر وقت رہتے ہیں اور دو معزز فرشتے "کراماً کاتبین" تو اسی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں کہ کر کیا رہا ہے اسے لکھا اور محفوظ کیا جائے۔ اللہ پاک نے اس بات سے باخبر فرما دیا ہے، ارشاد ہے؛
___ وإن عليكم لحافظين كراما كاتبين يعلمون ما تفعلون. ترجمہ : تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔ (الإنفطار: 10-1)
اس نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنی مخلوق کے پاس ہیں، دور نہیں۔ (ونحن اقرب) حاضر ہیں، غائب نہیں۔ (وما کنا غائبین) دیکھ رہے ہیں، آنکھیں بند نہیں۔ (بأن اللہ یری) بیدار و ہوشیار ہیں، غافل نہیں۔ ما کنا عن الخلق غافلين. ہم اپنی مخلوق سے غافل و بے پرواہ نہیں ہیں۔ (المؤمنون: 17)
خالق کا انسانوں سے غیب میں ہونا، اس سے حجاب رکھنا اور اسے اپنے آزاد و تنہا ہونے کا احساس دینا فقط امتحان کی غرض سے ہے۔
"موبائل کی تنہائی" سے بچیں :
تنہائیاں دو قسم کی ہوتی ہیں، خلوت مع الرحمٰن اور خلوت مع الشیطان۔ جس میں رحمان کی یاد آئے، اس کا ذکرہو، اس کی فکر ہو، اس کے کلام میں تدبر ہو، اس کی تخلیق میں تفکر ہو اور دل اس کی طرف متوجہ ہو؛ یہ خلوت مع الرحمٰن ہے۔ اور دوسری تنہائی جس میں شیطان گناہ کی طرف مائل کرے، برے اور گندے خیالات ابھارے، تو یہ خلوت مع الشیطان ہے۔ شیطان کا بدل آج موبائل ہوگیا ہے۔ اگر انسان آنلائن ہو، تنہائی میں یوٹیوب پر مشغول ہو تو نفس؛ شہوانی خیال ابھارتا اور گناہ کی طرف لے جانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ گویا آج موبائل کی تنہائی؛ خلوت مع الشيطان کا بدل بن گیا ہے۔ اس لیے اگر شہوت اور نفس پرستی سے بچنے اور ایسے رسواکن انجام سے دور رہنا ہے تو "خلوت مع الجوَّال؛ یعنی موبائل کی تنہائی" سے بچنا ہوگا۔ یہ سب سے اہم اور مؤثر عملی تدبیر ہے۔
_____________________
0 تبصرے