دوسری قسط
ایک مفسر قرآن نے اس آیت کریمہ سے بڑی گہری بات اخذ کرتے ہوئے خوب استدلال کیا ہے لکھتے ہیں: "_ اے نبی! ان سے کہو اللہ بےحیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ _ بظاہر یہ بات ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جاہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرز استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بطور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہیے؛ ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھے اور اسے ایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن برہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چنانچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں، یا بازار میں، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمناک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استدلال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے یقین کرلیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کام کا حکم خدا کی طرف سے ہرگز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔"
جاری ____________
اگلا عنوان
بےلباسی و ننگاپن کیوں اور کہاں سے؟ :
#ہدایتِ ایمان؛ اللہ کا سب سے بڑا احسان [2]
0 تبصرے