ہدایتِ ایمان؛ اللہ کا سب سے بڑا احسان [1]



   دنیا کے تمام مذاہب میں تنہا اسلام حیاء اور حجاب کا علمبردار ہے جبکہ دوسرے تمام بےحیائی و بےلباسی سے نہ صرف راضی بلکہ اس کی طرف لپک رہے ہیں۔ اسلام انسانوں کو حجاب و لباس کی طرف بُلا رہا ہے اور دوسرے بےحجابی و بےلباسی کو اپنائے جارہے ہیں حد یہ ہے کہ کچھ تو مذہب کے نام پر برہنگی کو فروغ دے رہے ہیں، مرد و عورت کے پردے میں رکھے جانے والے اعضاء کو مذہبی تقدس دیا جارہا ہے۔ معاذ اللہ من ذلک
     اس پس منظر میں ضروری معلوم ہوتا ہے بےحیائی و عریانیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ اسی کے ساتھ حیاء اور ایمان کے درمیان لزومیت کا جو تعلق ہے اور بےحیائی اور شرک کے بیچ جو کشش و مقناطیسیت ہے اس اعتبار سے بھی ضروری ہے کہ حیاء و حجاب اپناکر ایمان کو بچایا جائے تاکہ اصل منزل جنت تک پہنچیں اور بےحیائی سے فاصلہ رکھا جائے تاکہ رب کی نگاہ میں نہ گریں اور دوزخ سے بچا جائے۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذآء من والجَفَاء والجَفَاء فی النار. (مشکوة۔431) ترجمہ : حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء و زیادتی ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔

     مضمون سلسلہ وار پیش ہوگا۔ ان شاء اللہ آخر تک یہ بات واضح ہوجائے گی کہ واقعی دینِ اسلام بندوں کیلئے اللہ پاک کا سب سے بڑا انعام ہے اور ہدایتِ ایمان اللہ پاک کا سب سے بڑا احسان ہے۔ ـــ قد منَّ اللہُ علینا أن ھدانا للإيمان ـــ
_____________________ 

(قسط اول)
اسلام پاکی اور حجاب والا مذہب :
       اسلام دینِ فطرت ہے اور طہارت و پاکی اور حیاء و حجاب والا دستورِ زندگی ہے۔ بے حیائی اور ننگےپن کو ناپسند کرتے ہوئے اس پر سخت بندش لگاتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں طواف کی عبادت بےلباس اور مادرزاد ننگے ہوکر بھی کی جاتی تھی، اس وقت کے جاہلوں نے اسے خدا کی طرف بھی منسوب کردیا تھا، اس پر اللہ پاک کی طرف سے کہا گیا __ اے نبیؐ! ان سے کہو اللہ بےحیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ __ درج ذیل آیت اور اس کی تفسیر میں اسی بات کا بیان ہے۔

وإذا فعلوا فاحشة قالوا وجدنا عليها آباءنا والله أمرنا بها قل إن الله لا يأمر بالفحشاء أتقولون على الله ما لا تعلمون ۞ (الأعراف: 28)
ترجمہ: اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں (یعنی ایسا کام جس کی برائی کھلی ہوئی ہو اور انسانی فطرت اس کو برا سمجھتی ہو، جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے اور (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے (ان کے جاہلانہ استدلال کے جواب میں) آپؐ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش کام کا کبھی حکم نہیں دیتا، کیا (تم ایسا دعویٰ کرکے) خدا کے ذمہ ایسی باتیں لگاتے ہو جس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے؟
___ تفسیر :
       اسلام سے پہلے جاہلیتِ عرب کے زمانے میں شیطان نے لوگوں کو جن شرمناک اور بیہودہ رسموں میں مبتلا کر رکھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قریش کے سوا کوئی شخص بیت اللہ کا طواف اپنے کپڑوں میں نہیں کرسکتا تھا، بلکہ یا وہ کسی قریشی سے اس کا لباس عاریتاً مانگے یا پھر ننگا طواف کرے۔ اور ظاہر ہے کہ سارے عرب کے لوگوں کو قریش کے لوگ کہاں تک کپڑے دے سکتے تھے، اس لئے ہوتا یہی تھا کہ یہ لوگ اکثر ننگے ہی طواف کرتے تھے، مرد بھی عورتیں بھی، عورتیں عموماً رات کے اندھیرے میں طواف کرتی تھیں، اور اپنے اس فعل کی "شیطانی تاویل" یہ بیان کرتے تھے کہ ”جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں انہی کپڑوں میں بیت اللہ کے گرد طواف کرنا خلاف ادب ہے۔“ عقل کے اندھے یہ نہ سمجھتے تھے کہ ننگے طواف کرنا اس سے زیادہ خلافِ ادب اور خلافِ انسانیت ہے۔ صرف قریش کا قبیلہ بوجہ خدّام حرم ہونے کے اس عریانی کے قانون سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔ 
        آیت مذکورہ اسی بیہودہ رسم کو مٹانے اور اس کی خرابی کو بتلانے کے لئے نازل ہوئی ہے، اس آیت میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ کوئی فحش کام کرتے تھے تو نیک طبیعت لوگ ان کو اس فحش کام سے منع کرتے اس پر ان کا جواب ہوتا کہ ہمارے باپ دادا اور بڑے بوڑھے یونہی کرتے آئے ہیں، ان کے طریقہ کو چھوڑنا عار اور شرم کی بات ہے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (ابن کثیر)
       اس آیت میں فحش کام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک یہی "ننگا طواف" ہے اور اصل میں فحش، فحشاء، فاحشہ ہر ایسے برے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو، اور عقل و فہم اور فطرت سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح اور کھلی ہوئی ہو۔ (مظہری)
      ان لوگوں نے اس بیہودہ رسم یعنی اپنے ننگے طواف کے جواز پر ایک دلیل یہ پیش کی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہی ایسا حکم دیا ہے، یہ سراسر بہتان اور حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف اس کی طرف ایک غلط حکم کو منسوب کرنا ہے، اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا : "قل إن الله لا يأمر بالفحشاء" یعنی آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی فحش کام کا حکم نہیں دیا کرتے۔ کیونکہ ایسا حکم دینا حکمت اور شانِ قدوسی کے خلاف ہے، پھر ان لوگوں کے اس بہتان و افتراء علی اللہ اور باطل خیال کی پوری تردید کرنے کے لئے ان لوگوں کو اس طرح تنبیہ کی گئی۔ "أتقولون على الله ما لا تعلمون" کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہو جس کا تم کو علم نہیں۔ یعنی جس کے یقین کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی حجت نہیں، اور ظاہر ہے کہ بلا تحقیق کسی شخص کی طرف بھی کسی کام کو منسوب کرنا انتہائی دلیری اور ظلم ہے تو اللہ جل شانہ کی طرف ایسی غلط نسبت کرنا کتنا بڑا جرم اور ظلم ہوگا۔
جاری ____________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے