اللہ بولتا ہے؛ سننے والے دل تو ہوں!
✍ نعیم الرحمن ندوی (قسط 1)
ایک مزاح نگار نے ایک جگہ میاں بیوی کی درمیانی تکرار اور میاں کے اکثر خاموش رہ جانے کو اس طرح تعبیر کیا ہے "دیکھا جائے تو شادی کا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے کہ صرف اسی صورت میں انسان خدا بن سکتا ہے جسے شاید *مجازی خدا* کہتے ہیں؛ اس لئے یہ کہیں کہ شوہر خدا کی طرح سنتا تو سب ہے، بلکہ ہر وقت سنتا ہے، لیکن *بولتا نہیں* ہے۔ (یونس بٹ)"
ہم تاویل کرلیتے ہیں کہ مزاح نگار؛ شوہر کی نظراندازی کو حق تعالٰی کے حلم و بردباری سے تشبیہ دینا چاہتے ہیں کہ واقعی پروردگار بڑا حلیم ہے اپنی مخلوق کی بے عقلی اور بدعملی کی سزا پر جلدبازی نہیں کرتا ایسے ہی شوہر اپنی شریکِ حیات کی غلطیوں کو نظرانداز کرتا رہتا ہے ہر وقت ہر بات کا جواب نہیں دیتا۔ (حالانکہ شوہر کو "مجازی خدا" کہنا بھی غلط ہے اس لئے کہ خدا واجب الوجود کو کہتے ہیں اور وہ صرف ایک ہی ہے، یعنی اللہ پاک __ وہی حقیقی خدا ہے، وہی سب کا خدا ہے، خدا میں کوئی مجاز نہیں، شوہر کو خدائی منصب پر فائز سمجھنا ہندووٴں کا طریقہ ہوسکتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔)
بہرحال یہ سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے کہ کیا سچا خدا بولتا نہیں ہے، خاموش ہی رہتا ہے؟ انسانوں کے کاموں اور سوالوں کا جواب نہیں دیتا؟ پکارنے والوں کی پکار سن کر دادرسی نہیں کرتا؟ کیا وہ اپنے سے محبت کرنے والوں سے دلجوئی کی باتیں نہیں کرتا؟
ان سب کا جواب یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے، اللہ جو سچا خدا ہے، بولتا ہے؛ گونگا نہیں، باتیں کرتا ہے؛ خاموش نہیں، انسانوں کو خطاب کرتا ہے؛ صامت نہیں، وہ اپنے چاہنے والوں اور فریاد کرنے والوں ہر ایک کا جواب دیتا ہے حتی کہ مظلوموں کی دادرسی کرتے ہوئے ظالموں کو غضب کا طمانچہ لگاکر عملی جواب بھی دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا بولتا ہے سننے والے کان اور متوجہ ہونے والے دل چاہیے۔ __ محبت الہی میں ڈوبے پاکیزہ قلوب تو اس سے چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں، دل کے کانوں ہی سے اس کے جواب سنتے ہیں، اتنا ہے کہ وہ ہمکلامی بے آواز و بے لہجہ ہوتی ہے۔
ہیچ کس در ملکِ او انباز نَے
قولِ او را لحن نَے آواز نَے
اس کی سلطنت میں کوئی شریک نہیں
اس کے قول و فرمان میں نہ آواز ہے نہ آواز کا لہجہ (شیخ فرید الدین عطار نیشاپوریؒ)
خواجہ صاحبؒ نے کیا خوب تعبیر کیا ہے
تم سا کوئی ہمدم کوئی دمساز نہیں ہے
باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے
ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے
معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے۔
لیکن ذیل کی سطروں میں معروف معنی میں "اللہ کے کلام کرنے" کو جاننے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔
اعلٰی صفاتِ انسانی دلیل ہیں :
ایک حدیث میں ہے "بیشک اللہ نے آدمؑ کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے، (فإنَّ اللَّهَ خلقَ آدمَ على صورتِهِ. (ای علی صفاتہ) مسلم ج۲، ص۳۲۷)" ابن آدم کی اعلٰی صفات میں سے سننا، دیکھنا، سمجھنا اور بولنا ہے، ان میں اہم ترین وصف؛ بولنا ہے، اسی بناء پر اسے جانوروں سے امتیاز حاصل ہوتا ہے اور اسے حیوان ناطق کہا جاتا ہے یعنی بولنے والا جاندار۔
مہربان خالق نے انسان کو پڑھنا سکھایا، تخلیق کے ساتھ ہی بولنا سکھایا۔ (الرحمن ٭ علّم القرآن ٭ خلق الإنسان ٭ علّمہ البیان) بولنا چاہے قلم کی زبان سے ہو یا منہ کی زبان سے دونوں ہی صفات رب کی پیدا کردہ ہیں۔ (إقرأ وربک الأكرم ٭ الذی علم بالقلم) سننا، دیکھنا، سمجھنا اور اسے بیان کرنا یہ اہم ترین صفاتِ انسانی ہیں جو خالق کی عطا کردہ ہیں۔
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ انسان کا وجود خدا کے یعنی اپنے خالق کے وجود پر سب سے بڑا گواہ ہے ایسے ہی انسان کے اہم ترین اوصاف خالق کے اِنہیں اوصاف پر گواہ ہیں یعنی خالق نے آنکھیں دی ہیں تو وہ خود نابینا نہیں، کان دیا ہے تو خود بہرا نہیں، عقل و سمجھ دی ہے تو خود بےعقل و ناسمجھ نہیں، ایسے ہی زبان و بیان، کلام و گویائی دی تو خود گونگا و بےزبان نہیں ہے۔ سادہ الفاظ میں؛ سننے والے انسان کا خالق سمیع ہے، دیکھنے والے انسان کا خالق بصیر ہے، سمجھنے والے انسان کا خالق علیم و حکیم ہے، ایسے ہی بولنے والے، کلام کرنے والے انسان کا خالق بولنے والا، کلام کرنے والا ہے۔
بولنا؛ الٰہی شان میں :
ایک شان شاہی ہوتی ہے جس میں ہمکلامی کا انداز اونچا اور ممتاز ہوتا ہے، وہ رعایا سے فرداً فرداً ہمکلام نہیں ہوتا بلکہ زبانی یا تحریری پیغام دیکر اپنا ایلچی بھیجتا ہے جو رعایا کو سنایا یا پہنچایا جاتا ہے۔ اس سے بہت بلند و برتر شان؛ الٰہی شان ہے جو انوکھی صفات کی حامل ہے۔ الٰہ؛ حقیقی شہنشاہ (شاہِ شاہاں) ہے، الٰہ و معبود اپنے منتخب صالح بندوں کو کبھی "نبی یعنی زبانی پیغام دینے والا" تو کبھی "رسول یعنی زبانی و تحریری دونوں صورتوں میں پیغام پہنچانے والا" مقرر کرتا ہے۔
لیکن ان انسانی پیغام بروں سے بھی ہمکلامی کے تین خاص طریقے ہیں، جنہیں خود اسی نے بیان فرمایا ہے؛ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّكَلِّمَهُ اللہُ اِلَّا وَحۡيًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآىٴِ حِجَابٍ اَوۡ يُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَيُوۡحِىَ بِاِذۡنِهٖ مَا يَشَآءُؕ اِنَّهٗ عَلِىٌّ حَكِيۡمٌ ۞ ترجمہ : کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے (روبرو) بات کرے، سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا کسی پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا (فرشتہ) بھیج دے، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا، بڑی حکمت کا مالک ہے۔"
خلاصہ یہ کہ اس دنیا میں کسی انسان سے اللہ تعالیٰ روبرو ہوکر ہمکلام نہیں ہوتا، اس کیلئے تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار فرماتا ہے، ایک وحی یعنی جو بات کہنا چاہتا ہے، وہ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے، دوسرے پردے کے پیچھے سے یعنی کوئی صورت نظر آئے بغیر بات کانوں کے ذریعے ہی سنادی جاتی ہے، جیسے حضرت موسیؑ کے ساتھ ہوا، اور تیسرا یہ کہ اپنا کلام کسی فرشتے کے ذریعے کسی پیغمبر کے پاس بھیجتا ہے۔
انسان میں برداشت کی طاقت ہی نہیں :
اللہ براہ راست ہمکلام نہیں ہوتا کہ اِس دنیا میں کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کا سامنا کرسکے یا آنکھیں بلاحجاب اسے دیکھ سکیں۔ اس کی ادنی مخلوق سورج ہے یعنی آفتابِ عالم تاب، اُسے وہ سراج یعنی چراغ کہتا ہے، انسانی آنکھیں اُسکی اِس چھوٹی سی مخلوق کی تابناکی و تابکاری کا تحمل نہیں کرسکتی تو تصور سے بالاتر اُس کے عظیم خالق کو کیسے دیکھ سکیں گی؟ ایک حدیث میں ذاتِ خداوندی کا سامنا ناقابلِ برداشت ہونے کو یوں بیان کیا گیا ہے؛
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ... حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ. ترجمہ: ... اس کی ذات کا پردہ نور ہے اگر وہ پردہ ہٹا دے تو اس کی ذات کے انوار جہاں تک اس کی نظر ہے ساری مخلوق کو جلا دیں۔ رواہ مسلم (مشکوٰۃ : 91)
کلامِ الہی کا نزول بصورتِ "کلام" :
حقیقی خدا اللہ پاک نے اپنی مخلوق سے کلام دو طریقوں سے کیا ہے، ایک اپنے نبیوں اور رسولوں کے واسطے سے زبانی طور پر اور دوسرے آسمانی کتابوں کے ذریعے تحریری طور پر، بطور خاص آخری پیغامبر محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اس معاملے میں سب سے جداگانہ ہے، اللہ نے آپ ﷺ کو آسمانوں پر بلاکر ہمکلامی کا شرف بخشا اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب قرآن کریم کو واضح طور پر کلام کی شکل میں اتارا۔ اور متعدد مقامات پر اسے "اپنا کلام یعنی کلامُ اللہ" کہا ہے۔ (حتی یسمعَ کلامَ اللہِ ثم أبلغہ مأمنہ...)
آخری نبیؐ کی ممتاز حیثیت کی بناء پر آپؐ پر نازل ہونے والی آسمانی ہدایت بھی ممتاز انداز میں یعنی "کلام" کی صورت نازل ہوئی، کلامِ الٰہی رب العالمین کی ذات سے نکلتا، ملکی پیغام بر جبرئیل امین سنتے اور پوری امانت داری کے ساتھ انسانی پیغام بر محمد ﷺ کو سناتے اور آپؐ کے قلبِ اطہر پر نازل کردیتے۔ (فانہ نزّلہ علی قلبک بإذن اللہ ... ) نبی علیہ السلام بشکلِ کلام ہی صحابہؓ کو سناتے، ساتھ ہی لکھوا لینے کا اہتمام بھی فرماتے۔
یہاں بھی غور کیا جائے تو بات واضح ہوگی کہ کلامِ الہی نبی علیہ السلام کے قلب اطہر پر نازل ہوا اور اس طور پر کہ اسے فرشتے نے تلاوت کرتے ہوئے نقل کیا اور آپ ﷺ نے سنا اور یاد کیا، کسی دوسرے انسان و جن کی اس میں مداخلت نہیں ہوئی۔ کسی صحابی رسولؐ نے بیان نہیں کیا کہ ہم نے اپنے کانوں جبرئیل علیہ السلام کی زبان سے کلامِ الہی نازل ہوتے ہوئے سنا، یا آپ ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی اور ہم اسے اپنے کانوں سے سن رہے تھے۔ کلامِ الہی نبی علیہ السلام کے دل پر اترا اور فقط آپ ﷺ ہی اسے سنتے، سمجھتے، یاد کرتے اور بعد میں صحابہ کرامؓ کے سامنے تلاوت فرماتے۔
ہیچ کس در ملکِ او انباز نَے
قولِ او را لحن نَے آواز نَے
اس کی سلطنت میں کوئی شریک نہیں
اس کے فرمان میں نہ آواز ہے نہ لہجہ
____________
0 تبصرے