نبی ﷺ کی صحبت کا انوکھا اثر یا معجزہ
✍ نعیم الرحمن ندوی
نبی علیہ الصلوۃ والسلام انسانوں کے علاوہ جنّوں کی طرف بھی مبعوث کئے گئے اور جنوں کی ایک تعداد نے آپ ﷺ پر ایمان بھی لایا جس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے؛ ( وإذ صرفنا الیک نفرا من الجنِّ یستمعون القرآن... ) اور ایک مکمل سورت ہی اس مخلوق کے نام ہے۔ (سورۃ الجن)__ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت سے صرف انسان ہی مستفیض نہیں ہوئے جنوں نے بھی استفادہ کیا، آپ ﷺ کی معیت نے انسانوں ہی میں نہیں جنوں میں بھی تبدیلی کی حتی کہ ایک سرکش شیطان نے بھی تابعداری و فرمانبرداری کا اقرار کیا۔
یہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا چھوٹا سا لیکن انوکھا واقعہ ہے کہ آپؐ کے ساتھ رہنے والا جّن جسے وسواس کہا جاتا ہے، جس کا کام ہی انسانوں کو شر کا وسوسہ ڈال کر خیر سے دور کرنا ہے وہ بھی آپ ﷺ کی صحبت سے آپ ؐ کی تابعداری و اطاعت گزاری کو اختیار کرلیا۔ کیمیا معمولی دھاتوں کو سونا بنا دیتا ہے ویسے ہی آپؐ کی صحبتِ بابرکت مٹی اور آگ کی حقیر مخلوق کو اپنے خالق کے ہاں بلند درجات کا مستحق بنادیتی تھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی "کیمیا اثری" ہی کہی جاسکتی ہے کہ ایسا ممکن ہوا ورنہ تو شیطان کا باوا ابلیس ہے جو انتہا درجے رب کا نافرمان ہے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے؛ إنَّ الشیطانَ کان للرحمن عصیاًّ : یہ شیطان تو اپنے مہربان رب کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ اور واقعی اس سے بڑا سرکش، ضدی اور متکبر کون ہوسکتا ہے! __ یہ عالمِ بالا میں فرشتوں کے ساتھ رہا، دوزخ کا مشاہدہ کیا اور بابا آدم کو بہکانے جنت میں بھی چلا آیا، دشمنی میں حد سے گزر گیا۔ وہاں سے نکالا گیا تو قیامت تک کیلئے آدمؑ کی اولاد کو بہکانے کی مہلت اور قسمیں اٹھا لیں۔ بھلا کس کا جگر ہے کہ جنت و جہنم کو سر کی آنکھوں سے دیکھے اور پھر بھی رب کی نافرمانی کرے! جنت کا انتہائی شائق اور دوزخ سے انتہائی خائف نہ ہوجائے! یہ صرف اسی ابلیس لعین کا ضدی پن اور بیجا تکبر ہے کہ مشاہدے کے بعد بھی کفر و انکار پر اڑا ہوا ہے۔ اب اگر اس کی برادری کا ایک فرد تابعداری پر آگیا تو یقیناً یہ اپنے آپ میں انتہائی انوکھی بات ہے، کسی عام انسان سے ایسا ہونا ممکن نہیں۔
حدیث مبارکہ میں منقول اس واقعے کو خود نبی علیہ الصلوۃ و السلام کے الفاظ میں پڑھیے۔
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلم: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ. قَالُوا: وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللہ؟ قَالَ: وَإِيَّايَ وَلَكِنَّ اللہَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ . رَوَاهُ مُسلم
ترجمہ: ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا ایک جنّ اور ایک فرشتہ ساتھی مامور کر دیا گیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ﷺ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری اعانت کی تو وہ فرمانبردار ہو گیا، وہ مجھے صرف خیرو بھلائی کی بات ہی کہتا ہے۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ: 67)
________
علمی نِکات :
حدیث مذکور میں لفظ "أسلم" اہم ترین ہے، اسی پر ساری معنویت دائر ہے۔ أسلمُ مضارع بضم المیم: محفوظ و مامون ہونا۔ سلامتی کے معنی میں، اہل علم نے اسے بھی اختیار کیا ہے۔ دوسرا معنی أسلمَ بفتح المیم تابعدار و فرمانبردار ہونا۔ یہی معنی زیادہ راجح ہے، مضمون میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے تیسرے معنی ہیں أسلمَ من الإسلام: (کفر سے) مسلمان ہونا، بعض شارحینِ حدیث اس طرف بھی گئے ہیں۔ تب اس سے مراد ہوگی کہ جن شیطان؛ اسلام لے آیا، اپنے جدّ ألْعَنْ ابلیس کے تمرد و سرکشی سے توبہ کرکے خدائے واحد پر ایمان لے آیا۔ تب تو یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ ہی ہوا، آپؐ کی صحبت و معیت کا یہ اثر ہوا کہ آپ ﷺ کے ہمہ وقتی ساتھی انسان ہی نہیں ایک ہمہ وقتی جن شیطان بھی آپ کے لائے ہوئے دین توحید پر آگیا۔
نیک صحبت کا اچھا اثر :
حدیث بالا سے معلوم ہوا کہ اچھے برے انسانوں کی صحبت و معیت کا اچھا برا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی رفاقت کیلئے اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے ورنہ بروں کی صحبت برائی پر ڈال دیتی ہے حتی کہ دین و ایمان بھی داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی پس منظر میں ارشاد فرمایا : المرأ علی دین خلیلہ: آدمی اپنے دوست کے دین و اخلاق پر ہوجاتا ہے۔ اچھی صحبت کا اثر اچھا ہی ہوا ہے اور اس حد تک بھی اچھا ہوا کہ کہا جاسکتا ہے؛ "الجنُّ علی طریق صاحبہ یا علی دین خلیلہ تارۃ"
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
________
اہم بات :
انسان کے ساتھ شیطان وَسواس اور فرشتہ ملہمِ خیر امتحان کی غرض سے لگائے گئے ہیں، انسان کے نفس میں تقوی و فجور دونوں الہام کئے گئے ہیں اور خیر و شر کی تمیز رکھ دی گئی ہے۔ امتحان اسی کا ہے کہ وہ خیر و تقوی قبول کرتا ہے یا فسق و فجور کو اپناتا ہے۔ اور کتابِ الٰہی اس پر مزید رہبر بنادی گئی ہے۔
اچھی صحبت اور اچھا رفیق فرشتے کا معاون و مددگار بن جاتا ہے، خیر کی طرف لے چلتا ہے جبکہ بری سنگت اور برا ساتھی شیطان کا آلہ کار بن کر اس کے گمراہی کے مشن میں شریک بن جاتا ہے، وسواس کے کام کو آسان کرکے دوست کو برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے؛
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند
نیک اور صالح انسان کی صحبت اور دوستی صالحیت اور پرہیز گاری کا باعث بنتی ہے اور برے افراد کی صحبت برائی کی طرف لے جاتی ہے۔
_____________________
نوٹ : حدیث مذکور کی مرقات و لمعات میں بیان کردہ علمی تشریح کا اسکرین شاٹ ملاحظہ فرمائیں۔
0 تبصرے