قرآن میں "برموقع کلام" کے اثرات :
قرآن کریم بروقت رہبری کرتا ہے گویا اللہ پاک اسی وقت خطاب کر رہے ہیں، اللہ پاک نے قرآن کی یہ شان رکھی ہے کہ ہر درپیش مسئلہ کی برمحل، بروقت رہنمائی کرتا ہے گویا یہ آسمان سے اِسی موقع، خاص اِسی وقت کیلئے نازل ہوا ہے۔ تاریخِ اسلامی میں اس کی "واضح ترین مثال" نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت نظر آتی ہے۔
نبی ﷺ کے انتقال کی خبر سن کر سارے صحابہؓ مضطرب ہوگئے، حالت غیر ہوگئی، اکثر صدمے سے جہاں تھے وہیں بیٹھے رہ گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضطراب سب سے بڑھ کر تھا، اس موقع پر آپؓ کی سب سے عجیب کیفیت ہوتی ہے، تلوار کھینچ کر کھڑے ہوتے ہیں اور بآواز بلند کہتے ہیں "منافقین کا گمان ہےکہ حضور ﷺ انتقال کر گئے، آپ ہرگز انتقال نہیں کئے بلکہ آپؐ تو اپنے پروردگار کے پاس گئے ہیں جس طرح موسیؑ کوہ طور پر اللہ تعالٰی کے پاس گئے تھے پھر واپس آگئے تھے۔" اس وقت امت کو سنبھالا دینے حضرت ابوبکر صدیقؓ کلامِ الٰہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں، حضرت عمرؓ سے کہتے ہیں اے عمر! کیا تم نے اللہ تعالٰی کا یہ قول نہیں سنا " اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمۡ مَّيِّتُوۡنَ ۞ (اے پیغمبر) موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنی ہے۔) __ وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ الۡخُـلۡدَ ؕ ... ۞ (اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔) پھر آپؓ نے تفصیلی خطبہ دیا جس میں بطور خاص یہ آیت "وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ ۞ (آل عمران:144)
ترجمہ: اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل (شہید) کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔) __ تلاوت فرمائی۔ اُس وقت حالت یہ تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں نے اِس سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہ تھی جسے دیکھو وہ انہی آیات کی تلاوت کررہا تھا۔ (طبقات ابن سعد) حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میری حالت بھی یہی ہوئی کہ گویا میں نے آج ان آیتوں کو پڑھا ہے۔ اور اپنے خیال سے رجوع کیا۔ (تفسیر قرطبیی) یہی شانِ قرآنی ہے جو اسے کلامِ الٰہی یا بیانِ خداوندی کہے جانے کا حقدار بناتی ہے کہ یہ بروقت و برمحل رہنمائی کرتا ہے۔
ایسے تجربات عام ہیں :
(نوجوان کا واقعہ)
قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے اور ادنی سا تعلق رکھنے والا بھی بارہا ایسے تجربات سے گزرتا ہے۔ چنانچہ اسی قسم کا ایک چھوٹا سا واقعہ اپنے ایک قریبی ساتھی کا بیان کردہ ہے جو بھلے سے امام مسجد ہیں اور قرآن کا درس بھی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک دن عشاء کے بعد درس قرآن سے فارغ ہوکر مصلے ہی پر ذرا تنہا بیٹھا تھا کہ محسوس ہوا ایک نوجوان بات کرنا چاہ رہا ہے، قریب بلایا، نوجوان چہرے مہرے سے سنجیدہ، پڑھا لکھا، اچھے مزاج کا معلوم ہورہا تھا، کہا امام صاحب! کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ آہستہ سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ "پچھلے چند دنوں سے طبیعت ہورہی ہے کہ اپنے آپ کو سزا دوں، پچھلی زندگی کے گناہ رہ رہ کر یاد آرہے ہیں اور دینی مطالعہ سے اللہ کی عظمت و بڑائی کا احساس ہورہا ہے کہ کیسے عظیم رب کی نافرمانی مجھ سے صادر ہوئی، کیوں نہ تنہائی میں برہنہ پیٹھ پر کوئی لکڑی وغیرہ سے ماروں اور توبہ استغفار کروں، اللہ سے رو رو کر معافی مانگوں، شاید اس طرح سے اللہ کو رحم آجائے، گناہوں کا بوجھ کم ہو، احساسِ ندامت میں کمی آئے، رہ رہ کر یہ جذبہ اٹھ رہا ہے، گناہ کی لذت چکھا ہوں تو اپنے ہاتھوں اپنے کئے کی سزا بھی دوں۔ (یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئیں، سر جھک گیا، گلا رُندھ گیا، کچھ دیر خاموش رہ کر گویا ہوا) لیکن دل میں ڈر بھی ہے کہیں ایسا کرنا گناہ تو نہیں! سوچا ذرا معلوم کرلوں۔ ___ ساتھی امام صاحب کہنے لگے کہ نوجوان کی یہ باتیں یہ حالت دیکھ کر کچھ دیر کیلئے مَیں بھی سناٹے میں آگیا، پھر اچانک قرآن کریم کی آیت ذہن میں آئی "ولا تقتلوا انفسکم ...... ) اس کی روشنی میں بات شروع کی کہ دیکھئے! بندہ اپنے جسم و جان کا مالک نہیں ہے، جس طرح دوسروں کو تکلیف پہنچانا منع ہے اسی طرح خود کو بھی اذیت دینا جائز نہیں ہے، تمہاری موجودہ حالت میں تم اپنے پر قابو نہیں رکھ سکوگے، تھوڑا کہہ کر زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہو، قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے " ولا تقتلوا انفسکم : اپنے آپ کو قتل مت کرو۔" (کہہ کر کچھ وقفہ لیا کہ اچانک آیت کے اگلے فقرے پر ذہن چلاگیا اس کو سامنے رکھ کر بات آئی) اچھا! تم ایسا اس لئے کرنا چاہتے ہو تاکہ اللہ کو رحم آجائے جبکہ اللہ تعالٰی اسی بات کے فورا بعد کہہ رہے ہیں "إنَّ اللہَ کان بکم رحیماً : یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔" تمہارا اتنا احساس ہی کہ اگر مجھے اجازت ہو تو میں اپنے آپ کو سزا دوں یہ اللہ کے رحم لانے کو کافی ہے، آگے ہاتھ اٹھانے، قدم بڑھانے کی اجازت نہیں، گویا اللہ کی رحمت بندے کیلئے اس سے آگے جانے کو پسند نہیں کرتی، ندامت کے بعد مزید جسمانی تکلیف میں مبتلا کرنا اسے گوارہ نہیں۔ ( کہہ کر خاموش ہی ہوا تھا کہ بے اختیار اس سے اگلی آیت سامنے آگئی؛ ومن یفعل ذلک عدواناً و ظلماً فسوف نصلیہ نارا وکان ذلک علی اللہ یسیرا. اس کو سامنے رکھ کر بات آگے بڑھی۔) دیکھئے! شرعاً خود کو اس طرح تکلیف پہنچانا درست نہیں ہے اس کے باوجود اگر ایسا کیا جائے تو اب اللہ کا جلال حرکت میں آسکتا ہے کہ میرا بندہ میری دی ہوئی رحمت و رخصت سے تجاوز کررہا ہے یہ زیادتی ہے، اس پر میری رحمت سے محروم کردیئے جاؤگے، اور دوزخ میں ڈال دیئے جاؤگے۔ اللہ پاک اسی آیت کے آگے فرما رہے ہیں "اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ بات اللہ کیلئے بالکل آسان ہے۔" دیکھئے! اللہ کا رحم کس چیز سے بچنے کیلئے طلب کیا جارہا ہے؟ تاکہ اللہ کے غضب سے اور اس کی بنائی ہوئی جہنم سے بچ جائیں لیکن حد سے آگے جانے، رب کی دی ہوئی رخصت قبول نہ کرنے پر اللہ ناراض ہو رہے ہیں، جہنم میں ڈالنے کا فرمان جاری ہورہا ہے۔ ( یہ کہا ہی تھا کہ ایکدم سے اگلی آیت ذہن میں آگئی؛ ان تجتنبوا کبائر ما تنہون عنہ نکفر عنکم سیّئاٰتکم وندخلکم مدخلا کریما. اس کے ضمن میں کہا) دیکھئے! بڑے چھوٹے گناہ ہوجانے اور اب اللہ پاک کی پہچان حاصل ہونے پر یہ احساس جاگ رہا ہے اور ایسا جذبہ پیدا ہورہا ہے لیکن اس بارے میں اللہ پاک گویا خود دلاسہ دے رہے ہیں، اطمینان دلا رہے ہیں۔ اسی سے اگلی آیت میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ بندو! اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔
ان آیات کے ترجمے و ترجمانی سن کر نوجوان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی، گویائی ساتھ نہیں دے رہی تھی، رک رک کر کہا کہ "مولانا! یہ ساری باتیں تو جیسے میرے لئے ہیں۔" ____ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ امام صاحب نے کہا کہ موجودہ احساسِ ندامت کے ساتھ گناہ اگر حقوق اللہ سے متعلق ہیں تو کبیرہ بھی دُھل گئے (النَّدمُ تَوبةٌ) اور صغيرہ کیلئے نیک اعمال کافی ہیں۔ اب کوشش کرو کہ مزید فرائض کے ساتھ نفل عبادتوں، اطاعتوں میں لگ کر گذشتہ کی تلافی کی جائے۔ نوجوان اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے عزم و حوصلے سے گویا ہوا "مولانا! اب میں نیک اعمال میں اپنے آپ کو تھکاؤں گا اور اپنے کو بدل کر رکھ دوں گا۔" یہ کہتے ہوئے دوبارہ اس پر رقت طاری ہوگئی، برداشت نہ کرسکا، سرجھکائے، ہاتھ بڑھائے مصافحہ کرکے بھیگی بھیگی آنکھیں لئے اٹھ کھڑا ہوا، جانے کیلئے مڑا۔ تصور میں آیت کریمہ کا منظر پھِر گیا ؛ وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّۚ ... ۞ اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو حق پہچان لینے کے اثر سے تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ وہ آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں۔
امام صاحب کہنے لگے کہ نوجوان کے چلے جانے کے بعد مجھ پر بھی بہت دیر تک خاموشی طاری رہی اور کلامِ الہی کی ایسی حسبِ حال رہنمائی سے بہت دیر تک مبہوت و شَشْدر رہا، دل بتکرار پکار رہا تھا کہ "یہ کلامِ الہی ہے" یہ خالق کا کلام ہے جس کی یہ تاثیر بارہا نگاہوں کو ایسے مناظر دکھاتی ہے۔ سارا واقعہ سن کر راقم کو قرآن میں ڈوبے شاعر علامہ اقبال یاد آگئے، زبان پر ان کی پکار آگئی۔
قرآن ميں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
خدائی کلام کی یہ تاثیر، نوجوان کی یہ حالت، یہ عزم و ارادہ یہی تو "جدّتِ کردار" ہے جس کی دعوت علامہ اقبال دے رہے ہیں۔
قرآن زندہ کلام ہے :
قرآن اپنی اثرآفرینی کے اعتبار سے زندہ کلام ہے، اس لئے کہ یہ زندہ ہستی کا کلام ہے، اللہ حیّ و قیوم قرآن کے واسطے سے کھلے طور پر بندوں سے کلام کررہا ہے، یہ "علیمٌ بذاتِ الصدور" کا کلام ہے جو اعلان کرتا ہے کہ ہم ہر وقت دل و دماغ میں اٹھنے والے خیالات اور گزرنے والے وساوس سے واقف ہیں (ونعلمُ ما تُوسوس بہ نفسُہ) اس لئے یہ ہر وقت کے پیش آمدہ مسائل کا فوری جواب دیتا ہے۔ قرآن تمام مسائلِ حیات کی ہدایت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، وہ زندگی کے تمام مسائل کی بہترین رہنمائی کرتا ہے اور اس کے تمامتر سوالوں کا درست ترین جواب دیتا ہے۔ قرآن فرد اور قوم دونوں کو یکساں رہنمائی کرتا ہے، فرد رجوع ہو تو فرد کے اعتبار سے قوم رجوع ہو تو قوم کی سطح پر رہبری کرتا ہے۔ اہل نظر مومنین کی فکر و نگاہ کو اسی کلامِ حکمت کے ذریعے جلا بخشا جاتا ہے اور سالکینِ راہ طریقت کا تزکیہ بھی اسی کلامِ ربّی کے ذریعے اصل مربّی و مزکّی اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اس سے "زندہ دلی اور حاضر دماغی کے ساتھ رابطہ" کیا جائے۔
(اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ ۞ ق:37)
یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے۔
_____________________
0 تبصرے