نمازوں کی چھٹی کیوں نہیں؟
(تیسری قسط)
رب کے حضور پیشی کا اندیشہ اور انعام :
رب کے حضور پیش کئے جانے کا اندیشہ رکھ کر زندگی گزارنے پر بڑا انعام ہے، یہی وہ احساس ہے جو انسان کو متقی بناتا ہے، محتاط زندگی پر آمادہ کرتا ہے، جس زندگی میں یہ احساس جس قدر زیادہ ہوتا ہے اسی قدر وہ زندگی تقوی و پرہیزگاری سے آباد ہوگی اور پھر رب کے انعام کی حقدار ہوگی۔ ارشاد باری ہے: واما خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى، فان الجنۃ ھی المأوى. وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔ ۞ (النازعات: 40-41)
اس احساسِ جوابدہی پر ایک نہیں؛ دو دو جنتیں ملیں گی، اعلی نعمتوں سے لبریز، آراستہ و پیراستہ جنتیں : ولمن خاف مقام ربہ جنتان.... اور جو شخص (دنیا میں) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا، اس کے لیے دو باغ ہوں گے۔ (الرحمن : 46)
احساسِ جوابدہی سے غفلت کا انجام :
رب کے سامنے پیشی کے لئے کھڑے ہونا تو سب کو ہے لیکن اس کے حضور مجرم بنا کر پیش کیا جانا انتہائی ہولناک انجام سے دوچار کرے گا اور مومن بن کر، اعمال صالحہ کے ذخائر لے کر پہنچنے پر بہت بڑے انعام و اکرام کا استحقاق بخشے گا۔ ارشاد باری ہے :
انہ من یات ربہ مجرما فان لہ جہنم لا یموت فیہا ولا یحیی ۞ جو شخص اپنے پروردگار کے پاس مجرم بن کر آئے گا، اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ وہ مرے گا اور نہ جئے گا۔ (طه: 74)
مرے گا تو اس لیے نہیں کہ وہاں کسی کو موت نہیں آئے گی۔ اور جیے گا اس لئے نہیں کہ وہ جینا موت سے بھی بدتر ہوگا، اس لیے وہ جینے میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک
اور مؤمن باعمل؟
ومن یاتہ مؤمنا قد عمل الصالحات فاولئک لہم الدرجات العلی. جنت عدن تجری من تحتہا الانہر خلدین فیہا... ۞ (طه: 74)
اور جو شخص اس کے پاس مومن بن کر آئے گا، جس نے نیک عمل بھی کیے ہوں گے، تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔ وہ ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
جاری ____________
0 تبصرے