کتّے، کتّا پن اور انسان
(پہلی قسط)
✍ نعیم الرحمن ندوی
"کتے" لفظ سنتے ہی رات کے سناٹے میں یا صبح تڑکے بھونکتی، شور مچاتی مخلوق تصور میں آتی ہے، یہ عجیب و غریب گروہ ہے کہ ہر تھوڑے فاصلے پر چند دوست کتے مل کر فوراً اپنی چھوٹی سی خیالی سلطنت قائم کرلیتے ہیں، یہ اقتدار گرچہ کسی ایک محلے یا چند گلیوں پر ہی پھیلا ہوتا ہے، لیکن اس پر بھی ان کے دائرہ فرمانروائی میں اگر کوئی اجنبی کتا (اپنا ہم جنس) آجائے تو بس وہ شور و غوغا برپا کرتے ہیں کہ بالآخر پطرس صاحب کو شعراء اور مشاعرے سے تشبیہِ بلیغ دینی پڑی۔
___ لیکن شکایت اِس کی ہے جب اُن کا یہ سلوک اپنے ہم جنسوں سے آگے بڑھ کر ناجنسوں یعنی انسانوں سے بھی برتا جاتا ہے اور وہ اس "اشرف مخلوق" پر بھی اپنا اقتدار جتانے لگتے ہیں، رات کے اندھیرے میں یا صبح تڑکے ان کا تیور سخت اور تیوری چڑھی ہوتی ہے، راہ گیر نگاہ نیچی کئے شرافت سے گزرے تو ٹھیک، ذرا ٹیڑھی ترچی نظریں بھی ان کی جانب اٹھ گئی تو بھونکنے، ڈانٹنے کیلئے بڑا سا نوکیلا منہ تیار ہوتا ہے۔
کتا مخلوق کے خیر و شر کا اعتراف :
کتا ہوتے ہوئے بھی اِن میں کچھ انسانوں کی عزت و احترام کرنے والے بھی ہوتے ہیں، وفاداری جیسی اچھی صفت بھلے مانَسوں سے بھی کرلیتے ہیں، قرآن مجید میں شریفوں کے ساتھ ان کے ایک شریف جد امجد کی وفاداری کا اعتراف ضمناً ہی سہی ملتا ہے، ارشاد ہے؛ وکلبہم باسط ذراعیہ بالوسیط ... اور ان (أصحاب کہف) کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ (اگلے دو پیر) پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا۔ (کہف : 18)
اور ان کے شر کا بھی ذکر ہوا ہے، چنانچہ ایک جگہ حریص انسان کی نفسانی حرص و لالچ کی مثال ان کی طبعی حرص و ہوس سے دی گئی ہے، ارشاد ہے؛ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلہث أو تتركه یلہث... (اعراف: 176) ترجمہ: اس کی مثال اس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی وہ زبان لٹکا کر ہانپے گا، اور اگر اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکا کر ہانپے گا۔ __ یعنی اگر کتے پر کوئی چیز پھینکی جائے تو چاہے وہ اسے مارنے کے لیے پھینکی گئی ہو، کتا اپنی زبان نکال کر اس پر اس حرص میں لپکتا ہے کہ شاید یہ کوئی کھانے کی چیز ہو۔ اسی طرح جو شخص دنیا کی حرص میں گرفتار ہو وہ ہر واقعے سے دنیا کا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے ہر حال میں ہانپتا ہی رہتا ہے۔
جانوروں میں بھی سبق اور سیکھ :
حکیم خالق ہی نے مختلف جانوروں کی الگ الگ طبیعت اور مزاج بنایا ہے، انسانوں کی آنکھیں، کان اور سوچنے سمجھنے والے دل و دماغ تمام مخلوق میں غور و فکر کے ساتھ ان حیوانوں میں بھی استعمال کرنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لیے ہیں تاکہ انسان جانوروں کی بری عادات و اطوار سے بچے اور خوبیوں کو اپنائے۔ ..... ایسا نہ کرنے والوں کیلئے کہا گیا ہے؛ ___ لہم قلوب لا یفقہون بہا ولہم اعین لا یبصرون بہا ولہم آذان لا یسمعون بہا اولئك کالأنعام بل ہم أضل أولئك ہم الغافلون. (الأعراف: 179)
ترجمہ: ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
جانوروں میں گروہی زندگی :
سورہ اَنعام (مویشی) نام کی سورت میں ہمہ اقسام جانوروں اور پرندوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح ہی گروہ اور جماعت ہیں، ان میں اجتماعی زندگی کا بھی شعور و احساس ہوتا ہے اور انسانوں کی طرح مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔
وما من دابۃ فی الارض و لا طائر یطیر بجناحیه الا امم امثالکم..... (الأنعام: 38)
ترجمہ: اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں۔
اگلی قسط کے ذیلی عناوین
⬆️ ⬇️
"کتاپن" انسانی اخلاقی کے منافی :
کتّا صفت انسان :
کتّا صفت نوجوان :
_____________________
0 تبصرے