___ چوتھی اور آخری قسط
بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر
انسان کی کرامت و بزرگی :
یہ "القدیر" خالق کی قدرتِ تخلیق ہے جس نے "ماء مہین یعنی حقیر پانی" کے، آنکھوں سے نظر نہ آنے والے خوردبینی کیڑے کو "ایسی بہترین ساخت" دی اور "العلیم" پروردگار کا علم ہے جس کا قلیل حصہ ہی عطا ہوجانے پر اس انسان کو "خلیفۃ اللہ فی الارض" کا استحقاق بخشا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ تصور سراسر غلط ہے، باطل ہے کہ انسان؛ بندر کی اولاد ہے، بندر کی طرح جنگلی زندگی سے پھر تمدنی زندگی پر آیا، پہلے اُجَڈْ گنوار تھا پھر تہذیب یافتہ ہوا۔
کلام الٰہی؛ جس کی کوئی بات نہ علمی طور پر جھٹلائی جا سکی نہ عقلی طور پر، نہ ہی مشاہداتی سطح پر اس کا انکار کیا جا سکا۔ کلام الہی نے جن باتوں کے صدیوں پہلے اشارے دیئے آج سائنسی اکتشافات و ایجادات، نئی دریافتیں ان کے درست ہونے کی دلیلیں فراہم کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق _ وعلم آدم الأسماء کلہا ..... _ پہلا انسان ذی علم تھا، تہذیب و تمدن سے آراستہ، عقل و فہم والا تھا، شکل و صورت سے وجیہ و خوبصورت تھا، جنتی زندگی کا تجربہ اٹھا چکا تھا، اپنے خالق کی صحیح پہچان و درست معرفت رکھتا تھا، پروردگار سے ہمکلامی کا شرف پا چکا تھا، آسمانوں کے فرشتوں کا رفیق رہ چکا تھا، اس زمین پر خود بھی موحد تھا اور اپنی اولاد کو بھی دین توحید ہی پر چھوڑا تھا۔
بندرانہ شہوت پرستی سزا تو نہیں! :
محسوس ہوتا ہے کہ پچھلی چند صدیوں میں ان قوموں کی بدعملی کے سبب، پاک پروردگار کی طرف سے فطرت و طبیعت کے مسخ کا عذاب ان پر آیا ہوا ہے اسی طرح جیسے ایک سرکش و ضدی اسرائیلی قوم کو جسمانی و بدنی مسخ کا عذاب دیا گیا تھا یہ کہتے ہوئے " کونوا قردۃ خاسئین: ذلیل بندر ہوجاؤ" ویسے ہی گویا انہیں کہا گیا ہو " کونوا قردۃ خاسئین (بالطبيعة والعقل والذہن): ذلیل بندر ہوجاؤ" (اپنی طبیعت و فطرت اور عقل و ذہن کے اعتبار سے) ___ واقعی گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان کی طبیعت اور فطرت بندروں کی سی "کھلی شہوت پرست" بن گئی اور فحاشی و بے شرمی میں پورا پورا ملک گلے گلے ڈوبا ہوا ہے، حتی کہ ان کے نزدیک اس کے درست ہونے کے لئے "اولاد القردۃ: بندروں کی اولاد" ہونے کے نظریے سے علمی و فکری جواز بھی فراہم ہوگیا۔
جبکہ پروردگار قرآن کا نازل کرنے والا کس قدر فطری و عقلی بات بیان کرتا ہے کہ انسانوں تمہارے ماں باپ، پہلا انسانی جوڑا "بڑا حیادار تھا، اچھے اخلاق والا تہذیب یافتہ" تھا نہ کہ "شہوت پرست، بدشکل و بدصورت، بے تہذیب بندر"
الحاد؛ بڑا جرم اور اس کی سزا :
الحاد کہتے ہیں انحراف اور کج روی اختیار کرنے کو۔ "الحاد فی آیات اللہ" کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کی آیات اور اس کی نشانیاں تو کسی اور سمت میں رہنمائی کر رہی ہیں لیکن انسان اپنی ضد اور کج فکری و کج بحثی سے کوئی اور راستہ اختیار کرے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ نفس پرست، مذہب بیزار، خدا کا باغی، الحاد کا خوگر مادہ پرست گروہ بڑا جرم یہ کرتا ہے کہ اللہ کی نشانیوں میں ہیر پھیر کرتا ہے اور کبھی بے اصل نظریے اور کبھی بے روح مادّے سے جوڑ دیتا ہے، آیاتِ الہی کو آیاتِ مادّہ ثابت کرتا ہے، کروڑوں انسان جس تخلیقِ خداوندی کے ذریعے خالق تک پہنچتے، اس کی معرفت اس کی مخلوق کے ذریعے پاسکتے تھے، انہیں خالقِ حقیقی اور خدائے واحد سے پھیر دینے کا جرم کرتا ہے۔ خالق نے اپنے کلام میں ان کا جرم اور ان کی سزا بیان فرما دیا ہے : ان الذین یلحدون فی آیتنا لایخفون علینا أفمن یلقی فی النار خیر أم من یاتی آمنا یوم القیمۃ اعملوا ماشئتم انہ بما تعملون بصیر.
ترجمہ: جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے۔ بھلا بتاؤ کہ جس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے، وہ بہتر ہے، یا وہ شخص جو قیامت کے دن بےخوف و خطر آئے گا؟ (اچھا) جو چاہو کرلو یقین جانو کہ وہ تمہارے ہر کام کو خوب دیکھ رہا ہے۔ (فصلت: 40)
تخلیقِ انسانی اللہ کی نشانی ہے : ومن آیاتہ أن خلقکم من تراب ثم إذا أنتم بشر تنتشرون. : اور اس کی (قدرت کی) ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تم دیکھتے ہی دیکھتے انسان بن کر (زمین میں) پھیلے پڑے ہو۔ (الروم : 20) __ اور مُلْحِد اسے کبھی بندر سے تو کبھی بے حیثیت مادّے سے جوڑتا ہے۔
اولادِ آدم کی غفلت و سرکشی :
لیکن افسوس جب خالق نے اس شریف و کریم انسان آدمؑ کی نسبت سے اس کی اولاد کی تکریم کی اور انہیں زمین کا راکب بنایا، (ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البر والبحر...) خلافتِ ارضی عطا کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی طور پر رب کا حکم نافذ کرنے کا پابند کیا تو ابلیس لعین کی طرح اس کی اکثریت بھی نفس (امارۃ بالسوء) کے جال میں پھنس گئی، شیطان مارِدْ نے بھی اپنا شر شامل کیا، یوں یہ مالک الملک رب سے بغاوت کرتے ہوئے بہت مرتبہ اپنی خود مختاری پر اترآیا، مالک الملک نے اپنے ایلچی بھیجے لیکن اپنی اوقات بھول جانے والا یہ انسان باز نہ آیا، آخرش غالب و قہار رب نے ایسے تمام فرعونوں کے سر اس دنیا میں بھی توڑ دیئے، حقیر پانی کے، حقیر کیڑے کو پانی ہی میں ڈبو کر مارا اور ایسوں کے ایک شخص کی نعش کو سبھوں کے لئے نشانِ عبرت بناکر محفوظ کردیا۔ ﴿ فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون. یونس :92﴾
_____________________
سوچئے تو ذرا !
اُس عظیم ترین خالق کے سامنے، اِس حقیر ترین انسانی مخلوق کو شوبھا دیتا ہے کہ وہ اس کی زمین پر تکبر کی چال چلے، اس کے حکم سے روگردانی کرے، اس کی اطاعت سے سرکشی کرے، اس کے آگے سینہ تان کر کھڑا ہو، ہرگز ہرگز زیبا نہیں دیتا۔ لیکن وہ "حلیماً لایعجل" ہے، ایسا بردبار ہے جو جلد بازی نہیں کرتا، اس کا حِلْم یوم القیامہ کا انتظار کر رہا ہے جس دن تکبر کرنے والوں کو گھسیٹا جائے گا، تمام سرکش گردنیں ناپی جائے گی، روگردانی کرنے والے چہرے مٹی میں رگڑے جائیں گے، سینہ تان کر چلنے والے منہ کے بل کھینچے جائیں گے، سر اٹھا کر چلنے والے سر کے بل چلائے جائیں گے، کوئی شک نہیں کہ جو ہستی آج پیروں پر چلا رہی ہے وہی کل سر کے بل چلائے گی۔ لاشک فیہ، ھو قادر علی کل شیئ
____ لیکن
افسوس ہے اُس انسان پر جو اِس عالمِ ناسوت میں ایمان و عملِ صالح سے محروم ہوکر أسفلَ سافلین کے انجام سے دوچار ہو۔ اور اس سے بڑھ کر افسوس اُس پر ہے جو اس امتحان گاہ میں ایمان اور عمل صالح کی دولتِ بے بہا پاکر بھی خفیہ گناہوں میں پڑا رہا، لطیف و خبیر رب کو ناراض کیا، اس کی خفیہ سزا کا نشانہ بنا اور ایمان سے محروم ہوکر اعمال صالحہ کو حبط و برباد کروا بیٹھا اور بدترین جگہ ڈال دیا گیا۔
یہ احساس اُس وقت اور بھی خوف کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے جب یہ حقیقت سامنے ہو کہ لکھنے والا، پڑھنے والا اور مومن و غیر مومن ہر انسان یہ اندیشہ، یہ امکان رکھتا ہے کہ وہ اس آخری درجے کی ذلت و رسوائی کا سامنا کرے اور اس حقیقی واقعے کا کردار بن جائے۔ اللہم احفظنا منہ
اللہ پاک "أحسن تقویم" میں ڈھلے انسانوں کو "أسفلَ سافلین" کے انجام سے بچائے، ایمان و عمل صالح کی توفیق بخشے، اسی پر خاتمہ مقدر فرما کر "اجرِ غير ممنون" کا حقدار بنا دے۔ آمین یا رب العالمین
_____________________
0 تبصرے