بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر (تیسری قسط)



_____ تیسری قسط
بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر

ابلیس کا اعتراض اور خالق کا جلال :
        خالقِ انسان ہستی نے وجودِ انسانی کو اپنی بے مثال قدرت سے خلق کیا، علم کو اخذ کرنے کے معاون اعضاء اور بہترین صلاحیتیں پیدا کیں، اپنی طرف سے خاص علم سے نوازا اور بقیہ تمام مخلوق پر شرف و فضیلت بخشی۔ مقرب نورانی مخلوق فرشتوں کے اظہارِ تعجب اور تحفظات پیش کرنے پر ان کے سامنے آدمؑ کی برتر صلاحیتوں اور علمی فوقیت کا چھوٹا سا مظاہرہ کروایا اور اس پہلے خاکی وجود کے آگے جنّ و ملَک سب کو تعظیم کی غرض سے سجدے کا حکم صادر فرمایا۔ حاسد ابلیس کو اعتراض ہوگیا، باری تعالیٰ کی عظیم قدرت و کمال پر دلالت کرنے والے جملے _ ولقد خلقنا الإنسان من صلصال من حمأ مسنون. (الحجر : 26) _ کو اعتراض اور تحقیر کے لب و لہجے میں دہرایا، اس خاکی مخلوق کی توہین پر اتر آیا اور حکم ربی کا انکاری ہو گیا، تکبر سے کہنے لگا __ اس وجود کو جس کو تو نے سڑے ہوئے، بدبودار گارے کی خشک مٹی سے پیدا کیا ہے میں اس کی عظمت و بڑائی کو تسلیم نہیں کرتا، اس کو سجدہ نہیں کرتا۔ (لم أكن لأسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حمأ مسنون. الحجر : 33) __

         خالق کی اس شاہکار تخلیق اور اس کی بے پناہ علمی و عقلی صلاحیتوں کی اس توہین پر باری تعالی کو جلال آنا ہی تھا سو آیا اور اس متکبر حاسد کو آسمانوں کی جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق اور خاکی مخلوق کی عظیم صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ابلیس کے ساتھ پہلے انسانی جوڑے آدم و حوا کو بھی اس زمینی امتحان گاہ پر اتار دیا۔
       لیکن ابلیس نے آدمؑ کی دشمنی و حسد میں اسے گمراہ کرنے کو اپنا مقصدِ زندگی بنالیا۔ پروردگار نے بھی اعلان کر دیا کہ اس آدم کی اولاد کو میں نے بہترین سانچے، (احسن تقویم) میں ڈھالا ہے، خیر و شر کی تمیز دیا ہوں، زمین پر بھی ہدایت و رہبری کے تمام تقاضوں کو پورا کروں گا، اپنی طرف سے آسمانی کتابوں اور پیغام بروں کو بھیجوں گا، ان سب کے بعد بھی اگر اولادِ آدم نے تجھ ابلیس کی طرح نفس پرستی اور تکبر و سرکشی کی راہ اختیار کی تو تیرے ساتھ انہیں بھی دوزخ میں پست ترین جگہ جھونک دونگا، صرف میرے ماننے والے اور میری ماننے والوں کو بخشوں گا اور انہیں کبھی نہ ختم ہونے والا من پسند عیشِ دوام عطا کروں گا۔

 خالقِ انسان چار چار قسمیں اٹھا کر کہتا ہے:
 والتين والزيتون ۞ وطور سينين ۞ وهذا البلد الامين ۞ *__ لقد خلقنا الانسان في أحسن تقويم ۞ ثم رددناه أسفل سافلين ۞ الا الذين امنوا وعملوا الصالحات فلهم أجر غير ممنون ۞__* ...... (سورۃ التين)

ترجمہ : قسم ہے انجیر اور زیتون کی ۞ اور صحرائے سینا کے پہاڑ طور کی ۞ اور اس امن وامان والے شہر کی __ ۞ کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ ۞ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں ۞ سوائے ان کے جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، تو ان کو ایسا اجر ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۞ __* پھر (اے انسان) وہ کیا چیز ہے جو تجھے جزاء و سزا کو جھٹلانے پر آمادہ کر رہی ہے ؟ ۞ کیا اللہ سارے حکمرانوں سے بڑھ کر حکمران نہیں ہے ؟ ۞

جاری ___________

___ چوتھی اور آخری قسط کے ذیلی عناوین

1) بندرانہ شہوت پرستی سزا تو نہیں! :
2) الحاد؛ بڑا جرم اور اس کی سزا :
3) انسان کی کرامت و بزرگی :
4) اولادِ آدم کی غفلت و سرکشی :
5) سوچئے تو ذرا !
_____________________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے