بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر (دوسری قسط)



______ دوسری قسط
بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر

"علیمٌ قدیرٌ" ہستی کے عظیم علم و قدرت کا مظہر :
        پچھلی سطروں سے جہاں انسانی وجود کی بے قیمتی و حقارت ثابت ہوتی ہے وہیں عظیم خالق کے بے پناہ علم و قدرت کا اظہار بھی ہوتا ہے، خالق؛ منی کے خوردبینی کیڑے یعنی نطفے کو باپ کی محفوظ پشت سے نکال کر رحمِ مادر کی مضبوط قرارگاہ و جائے پرورش مہیا کرتا ہے، نطفے کے لیے حیض کے زہریلے خون کو فلٹر کر کے جسمِ انسانی کی نشوونما کے موافق بناتا ہے، جمے ہوئے خون کو گوشت کے لوتھڑے میں بدلتا ہے، ہڈیوں کی تخلیق کرتا ہے، خون کی رگوں کا جال بچھاتا ہے، ان میں صحت بخش خون دوڑاتا ہے، اک اک عضو میں کمال درجے کا اعتدال و توازن رکھتا ہے اور دل کو جسم کی حکومت دے کر اسے دہائیوں تک رُکے بغیر دھڑکتے رہنے کا حکم جاری کرتا ہے، پورے بدن پر بہترین جلد و کھال (Body Skin) چڑھاتا ہے، مختلف رنگ دیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے انسانی وجود انتہائی کامل اور دلکش شکل و صورت میں ڈھل کر عالمِ آب و گِل میں ماں کی گود میں آ جاتا ہے۔ کل تک وہ ماں باپ جو بچے کی ابتدائی شکل "قطرۂ منی" کو ایسا حقیر سمجھتے تھے کہ اپنے جسم اور کپڑے پر لگے رہنا گوارا نہیں کرتے، فورا دھو ڈالتے تھے، اب وہی ماں باپ اس کی انتہائی شکل "نوزائیدہ بچے" کو ہونٹوں سے چومتے ہیں، بوسہ دیتے نہیں تھکتے، پیار بھری نظروں سے تاکتے اور محبت و شفقت بھری آغوش میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
فتبارک اللہ احسن الخالقين
اللہ کیسا قدرت اور علم والا خلَّاق ہے جو ایسی حسین ترین تخلیق؛ حقیر ترین شئے "پانی کے کیڑے" سے وجود میں لاتا ہے۔ کیسا انوکھا اندازہ اور عظیم منصوبہ سازی ہے یہ! سبحان اللہ 

خالق خود ہی کہتا ہے ___
الم نخلقکم من ماء مہین ..... فنعم القادرون. (المرسلات : 20-23)
ترجمہ : کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟ ۞ پھر ہم نے اس (نطفے) کو ایک محفوظ مقام میں رکھ دیا ۞ ایک طے شدہ مدت تک ۞ تو ہم نے اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی اچھے اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ! ۞ 
_____________________ 

پاکی کی قدرت اور حضوری کی اجازت :
       قدرت والے خالق نے انسانی وجود کے تمام نجس اجزاء کے مخرج پر یعنی خون کی رگوں اور پیشاب، پاخانہ کے مقامات پر ایسی خوبصورت، لچکدار جلد و کھال چڑھائی ہے، ہر جانب ایسی جِلد (Body Skin) کَسی ہے اور اسے ایسا انسانی ارادے کے تابع کیا ہے کہ جیسے جیسے بچہ؛ لڑکپن سے بلوغت کی طرف آتا ہے یہ عاقل و مکلف انسان بے ارادہ کہیں سے نجاست کو خارج نہیں ہونے دیتا اور تمام نجس اجزاء کو جسم کے اندر روکے رکھتا ہے۔ پاک پروردگار نے ناپاک انسانی وجود کی پاکی و تطہیر کا کیسا محیرالعقول نظام وجودِ انسانی میں جاری کیا ہے۔
       ان سب کے بعد انسان کو اپنی پاک بارگاہ، مساجد و سجدہ گاہوں میں حاضری کے وقت ان تمام ناپاک چیزوں سے پاک صاف ہو کر حاضر ہونے کا حکم دیا، پیشاب پاخانے کی صفائی اچھی طرح کرکے باوضو آئیں، انسانی وجود کی اصل "قطرۂ منی" کے بارے میں خصوصی پاکی کا حکم دیا کہ انزال منی کے بعد غسل کیے بغیر رب کے حضور کھڑا نہ ہونا، اہتمام سے جسم دھونا، بال برابر بھی جگہ سوکھی نہ رہ جائے بالوں کو اچھی طرح مَلنا کہ ہر بال کے نیچے سے جنابت کی ناپاکی دور ہوجائے۔
        کیسا عظیم احسان ہے وجودِ انسانی پر اس کا جو اس نے اپنی پاک بارگاہ میں خصوصی توجہ کے وقت حالتِ نماز میں اپنے بندوں کو پاک رہنے کی قدرت عطا فرما دی ورنہ انسان اس عالمِ ناسوت میں اپنے گندے وجود کے ساتھ کیسے قرب الہی حاصل کرتا؟ کیسے وصول إلی اللہ کی منزلیں طے کرتا؟ اس خالق نے سچ کہا اور اس سے زیادہ سچا کون ہو۔ __ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم :
ترجمہ: ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ (التين: 4)

عفو و درگذر اور نظراندازی کی انتہا :
        وہ پاک ہے اور پاکی ہی کو پسند کرتا ہے، مادی وجود کے ناپاکی کے ساتھ اپنی بارگاہ میں کھڑے ہونے کو اس درجہ ناپسند کرتا ہے کہ بناتِ حوا کی غیراختیاری ناپاکی "ایامِ ماہواری" میں فرض عبادتیں نماز، روزے ہی سے رخصت دے دی لیکن ان سب کے باوجود اگر کوئی فردِ بشر معذوری کے درجے میں آ جائے تو نجس خون ( دمِ استحاضہ و دمِ رُعاف الدائم) اور ناپاک سیال پیشاب (سلَسل البول) کے باوجود اپنی شانِ عفو سے نگاہِ رحمت کرتے ہوئے نظر انداز کرتا ہے اور ان معذورین کو بھی اپنے حضور حاضری کی اجازت مرحمت فرما دیتا ہے۔ کوئی انتہا ہے اس سبحان ہستی کے عفو و درگذر کی کہ ایسے بندے، بندیوں کو بھی اپنی خصوصی رحمت و مغفرت سے محروم نہیں کرتا !!!

        مزید یہ کہ اگر آسمان کا ماءِ طہور زمین میں موجود نہ ہو یا بندے استعمال سے معذور ہوں تو بھی وہ عَفُوُّ و غفور خالق؛ پاک و صاف مٹی "صعیدِ طیب" سے مٹی کے وجود کو پاکی کی اجازت دے دیتا ہے، بوقتِ نماز اپنی نگاہِ کرم سے محروم نہیں ہونے دیتا، اپنی آغوشِ رحمت سے دور نہیں کرتا۔ یقیناً وہ ماؤں کی محبتوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے کہ اولاد کی نجاستیں ماؤں کے لئے قابل برداشت ہوتی ہے، وہ بچوں کی صفائی سے ناک بھوں نہیں چڑھاتی، جس طرح بدبو؛ ممتا کی گرمی میں پگھل کر اپنا اثر کھو دیتی ہے ایسے ہی رب کی رحمت اپنے معذوروں کی نجاست؛ قابلِ عفو قرار دے دیتی ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
_____________________

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے