بے ایمان انسان؛ حقیر کیڑے سے بدتر
(آغاز و انجام دونوں ہی اعتبار سے)
پہلی قسط _ ✍ نعیم الرحمن ندوی
انسان جب اپنے ہی جیسے انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے، اس کے گھٹیا کردار کی حقارت و ذلت کے لئے الفاظ و جملے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کی لغت میں جو آخری درجے کا رسواکن جملہ ملتا ہے وہ ہے؛ او گندی نالی کے کیڑے! ابے او گٹر کے کیڑے! ان الفاظ کو وہ زبان اور دانتوں سے پیس کر، چباکر ادا کرتا ہے، پھر چہرے کے نقوش اس کی نفرت کو مزید بڑھاتے ہیں۔
لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو ہر انسان پر یہ تعبیر صادق آتی ہے اور انسان اپنے آغاز و انجام اور ان کے درمیانی وقفے ہر اعتبار سے گٹر کی گندگی اپنے اندر لئے ہوئے، ٹوائلٹ بیسن (بیت الخلاء کے بھانڈے) کا پڑا ہوا فضلہ اپنے پیٹ میں اٹھائے اور بے شمار معنوی گندگیاں اپنے وجود میں سموئے "گندی نالی کا حقیر کیڑا" بنا ہوا ہے۔
انسانی نظر میں کیڑا کیوں حقیر ہے؟ :
اس لئے کہ گندگی میں پیدا ہوتا ہے، اٹھان اس کی گندگی سے ہوتی ہے، خمیر گندگی سے بنا ہوتا ہے، گندگی سے نکلتا ہے اور واپس گندگی ہی کی طرف لوٹتا ہے۔
انسانی وجود کی اٹھان :
انسانی وجود بھی بالکل اسی طرح "ماء مہین" یعنی "حقیر قطرے" میں وجود پاتا ہے اور باپ کی پشت سے ماں کے رحم میں منتقل ہوتا ہے۔ انسان؛ منی کے اندر اپنی ابتداء کے اعتبار سے حقیر سے کیڑے کی شکل میں ہوتا ہے، عربی میں "منی کا نطفہ (من نطفۃ اذا تمنی)" انگریزی میں "اسپرم (Sperm)" کہا جاتا ہے۔ باپ کا نطفہ؛ رحم کا بیضہ مل کر پرورش کی شروعات کرتے ہیں، حیض کا ناپاک و فاسد خون اس کے وجود کو بڑھاتا، نشوونما دیتا ہے، نطفہ رحمِ مادر میں جاتے ہی ماہواری (Menstrual blood) کو اپنی طرف منتقل کر لیتا ہے، اس ناپاک شئے سے اس کا گوشت پوست، ہڈیاں اور دوسری سارے اعضاء بنتے ہیں اور پھر نو مہینے کے بعد جس طرح پہلی مرتبہ باپ کی پشت سے رحمِ مادر میں ایک شرمگاہ سے منتقل ہوا تھا اب دوسری شرمگاہ سے اس عالمِ ناسوت میں آتا ہے۔
درمیانی زندگی کا وقفہ :
ساری زندگی پیشاب پاخانے کی نجاستیں خارج کرتا رہتا ہے اور ہر وقت پیٹ کی چھوٹی بڑی آنتوں میں کچھ نہ کچھ فضلہ لئے پھرتا رہتا ہے۔
مرنے کے بعد :
مرنے کے بعد حقیر مٹی میں دفن کردیا جاتا ہے، اب گندگی کا کیڑا اس کے اپنے وجود میں جنم لیتا ہے۔ جس طرح ٹوائلٹ بیسن سے نکلنے والے کیڑے بقایا فضلے سے پیدا ہوتے ہیں ایسے ہی قبر میں انسان کے پیٹ کے بقایا فضلے سے اس کی جھلیوں کو پھاڑ کر نکلتے ہیں اور اس کے مادی وجود کو چٹ کر جاتے ہیں۔ اور یوں انسان جس حقیر کیڑے کو دوسروں کی حقارت کے لیے بطور استعارہ کہا کرتا ہے خود اسی حقیر گندے سے کیڑے کی خوراک بن جاتا ہے۔ ( الا یہ کہ پروردگار کسی کے مادی وجود کوبھی پاکیزگی دے کر اسے دائمی بقا عطا فرمادیں۔) کیا کوئی شک رہ جاتا ہے انسان کے اس مادی وجود کی پستی و حقارت پر !
آخری انجام :
لیکن اس پر بس نہیں اگر انسان نے اپنے خالق کے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا ہوتا ہے تو آگے وہ ذلت و پستی کی انتہائی جگہ دوزخ کا کیڑا بنے گا، وہاں انتہا درجہ کی گندگی میں رہ کر گندگی کھاتا اور پیتا رہے گا، اسے زخموں کا دھوون؛ سڑا خون اور پیپ پلایا، کھلایا جائے گا، اس طرح ذلت اور پستی کی انتہا کو پہنچا دیا جائے، گندگی سے نکلا تھا گندگی میں پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن افسوس صد افسوس! "حیوانی گٹری کیڑے" کیلئے گندی نالی بھی حیات بخش ہوتی ہیں جب کہ "انسانی دوزخ کے کیڑے" کے لئے دوزخ؛ موت سے بھی بدتر جگہ ہوگی، ہر وقت "لا یموت فیہا ولا یحیی" والی کیفیت ہوگی تو ہولناک عذاب ہر سو پھیلے ہوئے ہونگے۔
جس طرح ٹوائلٹ بیسن سے یا گٹر سے نکلنے والے کیڑے کو پانی بہا کر واپس گندگی میں لوٹا دیا جاتا ہے بے ایمان شخص انجام کے اعتبار سے خدا کی نظروں میں ایسا ہی بلکہ اس سے زیادہ حقیر ہوتا ہے اور ایسے انسانوں کو جب بھی وہ دوزخ سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو عذاب کے فرشتوں کے کوڑوں میں دوبارہ اسی جگہ دھکیل کر گویا گندگی میں بیان دیئے جائیں گے۔
___ ثم رددناہ أسفل سافلین ___ ترجمہ: پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔ (التين: 5)
جاری _________
0 تبصرے