کتّے، کتّا پن اور انسان (دوسری قسط)



"کتاپن" انسانی اخلاقی کے منافی :
       ان سطروں میں ذکر ہورہا ہے کتوں کا، کتوں میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں اور عیوب بھی، جن میں کچھ کا اعتراف اور کچھ کی تنکیر کلامِ الہی بھی کرتا ہے، لیکن ایک ایسی خراب عادت ہے جو انکی ساری خامیوں پر غالب آجاتی ہے، ایک ایسا اخلاقی عیب ہے جو ان کی ساری خوبیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ وہ ہے حرص و لالچ اور دوسرے کو برداشت نہ کرنا۔ یہ حد سے بڑھی ہوئی ہوس اور گروہی و علاقائی عصبیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسے "مرکب لفظ" دیوانہ پن کی طرح "کتّا پن" یا ڈھیٹ پنا کی طرح "کتّا پنا" سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اسی اخلاقی عیب اور حرص و لالچ کو سامنے رکھ کر کسی حکیم و دانا نے دنیا پرستوں کی بہترین مثال دی ہے: الدنیا جیفة وطلاّبہا کلاب. ترجمہ: دنیا مردار ہے اور اس کی طلب و چاہت رکھنے والے کتے ہیں۔
       ایسی ہی انسانی مخلوق بھی ہے کہ ان میں اعلی اخلاقی اقدار اور اچھی عادتیں بہت سی ہوتی ہیں لیکن یہی حرص و لالچ اور اپنے ہم جنسوں کو برداشت نہ کرنے کی خراب عادت یعنی "کتّا پن" اگر اس اشرف مخلوق میں بھی آجائے تو اس کی ساری شرافت و کرامت پر جھاڑو پھیر دیتی ہے اور اسے خالق و مخلوق ہر جگہ بے وقعت کردیتی ہے۔ انسان کی وقعت و عزت، بلکہ دارین کی فلاح و کامیابی؛ حرص و لالچ سے بچے رہنے ہی میں ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے؛ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون. ترجمہ: اور جو لوگ اپنے دل کی لالچ سے محفوظ ہوجائیں، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (تغابن :16) درج ذیل سطروں میں اسی بات کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

کتّا صفت انسان :
       کتے اپنی خیالی علاقائی سلطنت قائم کرتے ہیں اور باہری کتے کو باوجود ہم جنس ہونے کے کھانے کی چیزوں اور رہائش میں برداشت نہیں کرتے، بنگاہِ تدبر دیکھیں تو انسانوں کے لئے ان کے اس طرزِ زندگی میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔
        یہ باہری کتے کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتے گمان کرتے ہوئے کہ یہ ہمارا علاقہ ہے، اس میں ہماری سلطنت ہے، وہ اجنبی کتے کو کھانے کی چیزوں میں؛ چاہے وہ مرا ہوا جانور ہی کیوں نہ ہو شریک نہیں کرتے، چیختے چلاتے ہیں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اس کھانے کی چیز میں دوسرے کا حق نہیں، ہم دوسروں کو دیں گے تو خود بھوکے رہ جائیں گے۔ گویا وہ زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ یہ زمین ہماری ہے، اس کی پیداوار پر ہمارا ہی حق ہے دوسرے کتّوں کا نہیں، یہ علاقہ ہمارا ہے، ہمارے ماں باپ، دادا پردادا اس علاقے میں بستے آئے ہیں، اس کے چپے چپے پر ہمارا پیدائشی حق ہے، دوسرے کتّے یہاں نہیں رہ سکتے۔
        لیکن کوئی سرپھرا انسان بڑا سا ڈنڈا لے کر ان کے پیچھے لگ جائے تو پھر یہ اپنے علاقے سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ اور ڈنڈا؛ گھنٹہ دو گھنٹہ ان پر سوار رہ جائے تو پھر یہ اپنا علاقہ، اپنی زمین، اپنے پُرکھے، دادے پردادے سب کچھ بھول کر ہجرت کرکے پردیس کو چل بستے ہیں۔
       لیکن ایسا کرنے سے پہلے کوئی شریف رحمدل انسان سوچے کہ بیچاروں کو کیا "محلہ بدر" کیا جائے، در بدری کے بجائے انہیں اپنا لیا جائے بس ذرا سمجھ داری سے کام لے لیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ خیال کرکے ان کو سمجھانے جائے کہ دیکھو کتّو! یہ زمین تمہاری نہیں انسانوں کی ہے، یہ علاقہ، محلہ، گلی سب حقیقت میں ہماری ملکیت ہے، تم لوگ ہمارا خیال کرو، سکون سے جیو اور جینے دو، ہم تم مل جل کر رہ لیتے ہیں، کیا لڑائی جھگڑا کریں!!! ___ تو کیا وہ بات مانیں گے؟ اتنی پیاری زبان سمجھیں گے؟ ایسا سمجھداری والا انسان ان کو پسند آئے گا؟ نہیں بلکہ وہ اس بھلے مانَس کا استقبال بھونکوں سے کریں گے اور بیچارہ اگر خالی ہاتھ گیا ہے تو دانت بھی دکھا کر ڈرائیں گے، دھمکائیں گے، کچھ تو واقعی نوچ کھسوٹ کرکے بدن لہولہان اور کپڑے پھاڑ دیں گے۔
      بالکل اسی طرح انسانوں میں بھی کچھ "کتّا انسان" پائے جاتے ہیں جو اس خدا کی زمین کو اپنی زمین قرار دیتے ہیں، اس کی پیداوار اور وسائل پر فقط اپنا ہی حق سمجھتے ہیں، اپنے بھائی بندوں کو، اپنے ہم جنسوں کو باہری اور اجنبی قرار دے کر ان کو بھونکتے ہیں، کاٹ کھاتے ہیں، گھروں سے نکال کر بے گھر کر دیتے ہیں۔ شریف انسان "خدا کے رسول" آتے ہیں، ان کے بعد ان کے نائب اٹھتے ہیں، دنیا کی حقیقت سمجھاتے ہیں، کہتے ہیں کہ انسانو! تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو، ایک ہی ماتا پتا کی سنتان ہو، آپس میں بھائی بھائی ہو اور ایک ہی خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہارا ربَّا بھی ایک اور ابَّا بھی ایک ہے۔ ﴿أبٌ واحدٌ (آدمؑ) و ربٌّ واحدٌ (اللہ)﴾ اس زمین اور اس کی ہر ہر چیز کا مالک وہی ہے اور اِس پر اُس نے تمام انسانوں کا حق رکھا ہے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت کتوں کی طرح نافرمانی کرتی رہی ہے، کتے تو کتے ہیں، بے عقل و ناسمجھ ہوتے ہیں لیکن حضرتِ انسان تو سمجھ بوجھ، عقل و فہم کے دعویدار بھی ہیں، اس کے باوجود بے عقلی، ناسمجھی کرتے آرہے ہیں، اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اس پر عذاب کا فرشتہ مہینوں، سالوں کورونا وغیرہ جیسا ڈنڈا لے کر آتا ہے، انسان بھاگتا جان بچاتا پھرتا ہے لیکن افسوس جیسے ہی کچھ مہلت ملتی ہے، واپس اپنے "کتّے پن" پر آجاتا ہے۔ اگر ایسی ہی روش رہی تو دھڑکا ہے کہ کوئی ایسا بڑا کوڑا بردار نہ آجائے جو دنیا سے نکال باہر کرکے ہی دم لے، کتا انسانوں کو جڑ ہی سے نہ مٹا دے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، اسے چاہیے کہ اپنے اشرف و اعلی ہونے کا ثبوت دے، حقیقت کو سمجھ کر مقصدِ زندگی کو پورا کرے، امن سے جیے اور جینے دے۔

کتّا صفت نوجوان :
        یہ ابھی ابھی چند سال پہلے وجود میں آئے ہیں، سمجھ لیا گیا ہوگا کہ یہ" کتا گولی کھانے والے؛ قوم کا مستقبل ہیں"، یہ گروہ قابلِ طعَن نہیں قابلِ رحم ہے، ایک صاحب مقتدی حالتِ زار پر افسوس کرتے ہوئے کہنے لگے کہ امام صاحب! یہ نوجوان پورے گھرانے کیلئے مصیبت بنے ہوئے ہیں، نا ختم ہونے والا دردِ سر ہیں، اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کے لئے بھی اچھے رشتوں میں رکاوٹ ہیں۔ سماج میں آئے دن نئے نئے مسائل کھڑے کررہے ہیں تو قوم کیلئے بھی پریشانی اور سامانِ رسوائی ثابت ہو رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا علاج ہے ان کا اور کس طرح سدھارا جائے انہیں!!!
_______

        شاعر صاحبِ شعور ہوتا ہے، درج ذیل اشعار میں فیض احمد فیض نے "حیوانی و انسانی ہمہ اقسام کتوں اور ان کے کتے پن" کی خوب عکاسی کی ہے، انہیں اپنی ذلت کا احساس دلانے اور ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دینے کو کہہ رہے ہیں، تاکہ ان میں بھی اصلاح کا عمل جاری ہوسکے۔

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے 
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے 
مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے 
تو انسان سب سرکشی بھول جائے 

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
_____________________ 

        دعا ہے اللہ پاک ہمیں "ہمہ اقسام کتوں اور کتے پن" سے پوری حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے