تیسری اور آخری قسط
دینِ اسلام سے پھرجانا انتہائی بدنصیبی
ارتداد سے بچے رہنے کا محفوظ ترین راستہ :
یہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے کائنات کے خالق و مالک سے محبت والا اور محبوبیت والا دوطرفہ تعلق پیدا کرنا۔ بےغرض محبت، بے لوث محبت؛ جس طرح دل میں ماں کی محبت، باپ کی عظمت، اس کا احترام ہوتا ہے؛ اس سے بڑھ کر اصل خالقِ حقیقی کی محبت اور عظمت کا ہونا مطلوب ہے، یہ حقیقت سمجھتے ہوئے کہ اسی نے ہمیں عدم سے وجود بخشا، ہم کچھ نہ تھے اسی نے ہمیں خلق کیا۔ __ انسان پر کبھی ایسا وقت آیا ہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا؟ ہم نے انسان کو پیدا ... (سورۃ الانسان:1) ___ مخلوق ہونا؛ خالق کی بلاشرط الوہیت و معبودیت تسلیم کرلینے اور اس کی بندگی کیلئے خود کو پیش کردینے کی سب سے بڑی وجہ رکھتا ہے۔ یہی محبت الہی اور خدا کی محبوبیت؛ بندے کو اپنے پروردگار سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں اسلام سے پِھر جانے والوں کے مقابلے میں ایسے ہی محبت کرنے والے اور محبوبانہ شان رکھنے والے بندوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ دین کیلئے سب کچھ قربان کردینے والے ہونگے لیکن دین سے پھریں گے نہیں ؛
يا أيها الذين آمنوا من *يرتد منكم عن دينه* فسوف يأتي الله بقوم يحبهم ويحبونه ..... ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم میں سے *کوئی اپنے دین سے پھِرجائے گا* تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ ..... (المائدة: 54)
اسی محبت اور محبوبیت کا دو طرفہ تعلق بندے کو ہر قسم کے حالات میں ثابت قدم رکھتا ہے اور ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رکھتا ہے، پروردگار کی پاکیزہ محبت بندے کو جب اپنا بنا لیتی ہے تو پھر بندہ "مرضیِ مولی از ہمہ اولی" کی مجسم تصویر بن جاتا ہے اور جان و مال، عزت و آبرو ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے، زبانِ حال سے کہتا ہے ؛
اے دل تمام نفع ہے، سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں؛ "جس کا دل اس محبت الہی کا آشنا ہوگیا اس کے دل کو نہ کوئی جلال مرعوب کرسکا ہے نہ کوئی جمال مسحور کرسکا۔"
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
جس دل میں خدا کی محبت آ جائے، زندگی میں خدا کی محبوبیت والے اعمال آجائیں اس کی نظر میں دنیا کی کسی چیز کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی، اس لیے کہ اس کے دل میں شہنشاہ کی محبت گھر چکی ہے اب کسی دوسری چیز کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ کسی نے کیسا عجیب نقطہ لکھا ہے، (إن الملوك إذا دخلوا قرية أفسدوها وجعلوا أعزة أهلها أذلة وكذلك يفعلون. النمل:34) دنیا کا چھوٹا سا بادشاہ بھی جب کوئی چھوٹا سا ملک فتح کرتا ہے، اس میں فاتحانہ داخل ہوتا ہے تو اس کے عزت داروں کو قیدی بناکر ذلیل کردیتا ہے۔ اللہ سبحان ہے، ظلم سے پاک ہے، اللہ پاک کی یہ شان ہے کہ جب وہ کسی دل میں آتے ہیں تو اس دل کی تمام معزز چیزیں ذلیل ہو جاتی ہیں، دل سے؛ مال و دولت کی چاہت، شہوت و لذت کی ہوس، عزت و مرتبہ کی خواہش مٹ جاتی ہے اور پاک پروردگار کی پاکیزہ محبت گھر کرجاتی ہے۔ پھر یہ حال ہوتا ہے کہ بندگی کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتی ہے، ثواب و عذاب سے اوپر اٹھ کر بندگی کی جاتی ہے۔ جس کی ترجمانی عارف باللہ شاہ حکیم اختر رحمتہ اللہ علیہ نے یوں کی ہے ؛
بندگی سے ہمیں تو مطلب ہے
ہم ثواب و عذاب کیا جانیں!
کس میں کتنا ثواب ملتا ہے؟
عشق والے حساب کیا جانیں!
محبت اور معرفت الہی ایسی ہی محفوظ پناہ گاہ ہے جس میں دین و ایمان خطرے سے محفوظ و مامون ہوجاتا ہے، اسی لئے عارفین و محبینِ الٰہی کی؛ بارگاہِ الہی میں اول و آخر یہی ایک صدا، یہی ایک دعا، یہی ایک مانگ ہوتی ہے۔
الہی مقصودِ من توئی و رضائے تو
محبت و معرفتِ خود بدہ
میرے معبود! میرا مقصود و مطلوب بس تو اور تیری خوشنودی ہی ہے۔ اپنی چاہت، اپنی معرفت عطا کردے۔
نبی ﷺ کی مانگی ہوئی محبت الہی کی دعائیں :
امام العارفین محمد عربی ﷺ نے بھی خالق کائنات سے اس کی محبت کا سوال کیا ہے اور بڑے دلپذیر پیرایہ میں اپنی طلب رکھی۔ کچھ دعائیں ملاحظہ ہو ؛
1) اللهم انی اسئلک حبک و حب من یحبک و العمل الذی یبلغنی حبک، اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی و مالی واھلی ومن الماء البارد. (الترمذی: 3490)
اللہ پاک راقم کے حق میں بھی ان دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین یا رب العالمین
_____________________
محب اور محبوبیت کی شان کس راستے سے؟ :
محبتِ الہی اور محبوبیتِ الہی کی دوطرفہ شان بندے میں کس طرح آتی ہے؟ ___ بندہ خالق سے محبت کرتا ہے، اس کے بعد خالق کو جو ادائیں، جو صفات محبوب ہیں اس کو اپنا کر محب سے ہوکر اس کا محبوب بنتا ہے۔ خالق کی محبت سے اس کی محبوبیت تک کا سفر کس ذریعے سے طے ہوتا ہے؟ اسے خالقِ کائنات نے خود ہی بیان کردیا ہے۔ خالق کی محبوب ترین ہستی محمد عربی ﷺ ہیں۔ اور اس نے خود انہی کی زبانی اعلان کروا دیا ہے کہ تم خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کو ثابت کرنے اور محبِّ الہی سے آگے؛ محبوبِ الہی بننے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے محمد عربی ﷺ کی کامل اتباع اور ان کی مکمل پیروی ؛
قُل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ... ترجمہ: (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا ..... (آل عمران:31)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ "سنتوں پر عمل کرتے کرتے بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔"
خلاصہ یہ کہ
ارتداد ڈرنے، اندیشہ رکھنے کی چیز ہے، خود بچنے، اہلِ خانہ کو بچانے کیلئے تمام تدبیروں کے ساتھ دعاؤں کا خصوصی اہتمام اور اللہ پاک کی محبت اور اس کی محبوبیت کے حصول کی کوشش کرنے اور یہ بات نسلوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک سوء خاتمہ سے بچاکر ایمان پر خاتمہ مقدر فرمائے، اور دلوں کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے شاد و آباد فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
0 تبصرے