سوتیلی ماں بھی؛ سگی ماں کے رتبے میں
✍ نعیم الرحمن ملی ندوی
قرآن کریم میں سورۃ یوسف کو اللہ پاک نے احسن القصص قرار دیا ہے۔ اس سورت میں معاشرتی نقطۂ نظر سے بڑی قیمتی ہدایات ملتی ہیں، غور و فکر کرنے پر بے شمار نکات جگہ جگہ کھلتے چلے جاتے ہیں؛ انہی میں ایک یہ ہدایت بھی "الفاظِ قرآنی اور پیغمبرانہ رویے" کے قالب میں ملتی ہے کہ باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں، باپ کی زوجیت میں ہوتے ہوئے بڑی حد تک حقیقی ماں کے رتبے میں ہوجاتی ہے۔
مصر میں استقبالیہ :
قصۂ یوسف کا وہ حصہ ذہن میں تازہ کیا جائے جب کنعان سے خاندانِ یعقوبؑ ہجرت کرکے ملک مصر میں داخل ہوتا ہے اور _ وہ بلند اقبال و بلند اخلاق بیٹے جو عزیز مصر کے "اہل خانہ اور جیل خانہ" دونوں کے ظلم و ستم پر "صبر اور تقوے" کے بعد اب وقت کے عزیزِ مصر بنے ہوئے ہیں _﴿ إنه من يتق ويصبر فإن الله لا يضيع أجر المحسنين ﴾_ وہ فرزند ارجمند خانوادۂ نبوت کے استقبال میں شہر سے باہر تشریف فرما ہیں۔ خاندانِ نبوت مصر میں داخل ہوتا ہے تو یوسف علیہ السلام بذات خود آگے بڑھ کر استقبالیہ پکارتے ہیں؛
اور ماں باپ کو بڑے اہتمام سے اپنے قریب، اپنے جِلو میں لے کر چلتے ہیں؛ اس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے؛
ترجمہ: پھر جب یہ سب لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی ..... يوسف: 99) ___ قصرِ شاہی میں پہنچنے کے بعد یوسف علیہ السلام ان کے اعزاز و اکرام کا بہترین رویہ اپناتے ہوئے اپنے ماں باپ کو اونچی جگہ تختِ شاہی پر بٹھاتے ہیں، اس کا بیان ان الفاظ میں ہے؛
ترجمہ: اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا .....)
الفاظِ قرآنی اور پیغمبرانہ سلوک :
غور کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں مقام کے تذکرے میں اللہ پاک نے جو الفاظ ذکر فرمایا ہے وہ "حقیقی ماں" کے سے ہیں اور پیغمبر یوسف علیہ السلام کا رویہ بھی اپنے "والد کی بیوی کے ساتھ بالکل سگی ماں کی طرح" ہے حالانکہ مشہور روایتوں کے مطابق "والدۂ یوسف راحیل" کا انتقال ہوچکا تھا اور موجودہ خاتون ان کے والد کی بیوی ہیں لیکن پیغمبرانہ اخلاق و رویے میں ذرا ایسی تبدیلی نہیں آتی جس سے محسوس ہو کہ یہ "خاتون" ان کی "سگی ماں" نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن کریم کے الفاظ بھی دونوں آیتوں میں اسی انداز کے ہیں "ابویہ : اس کے ماں باپ" ورنہ اس طرح بھی ذکر کیا جاسکتا تھا ؛ ﴿ فلما دخلوا علیہ آوی الیہ "اباہ وامرأۃ ابیہ" ... ﴾ جس کا ترجمہ ہوتا ؛ پھر جب یہ سب لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے "اپنے والد کو اور ان کی بیوی" کو اپنے پاس جگہ دی .....) __
"قرآنی الفاظ اور پیغمبرانہ سلوک" سے بات صاف ہوجاتی ہے کہ اسلامی اخلاق اس بات کے متقاضی ہیں کہ "باپ کی دوسری بیوی کو بھی حقیقی ماں کا سا رتبہ" دیا جائے، وہی اکرام و احترام ہو، وہی سلوک ہو جو سگی ماں سے برتا جاتا ہے اور سگی ماں کی طرح ہی انہیں بھی حصۂ وراثت دینے کا اہتمام کیا جائے۔
حکم شرعی اور حصۂ وراثت میں یکسانیت :
قانونِ شریعت میں بھی باپ کی پہلی اور دوسری دونوں بیویوں (یعنی سگی اور سوتیلی دونوں ماؤں) کا "حصہ اور حکم" یکساں بیان کئے گئے ہیں، باپ کی دوسری منکوحہ یعنی سوتیلی ماں سے بھی اولاد کے لئے نکاح حرام ہے جیسی پہلی منکوحہ یعنی سگی ماں سے
متوفی شوہر یعنی باپ سے دوسری بیوی کا بھی وراثت میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا پہلی بیوی کا، اس میں کوئی تفریق نہیں۔
سماج کا المیہ :
افسوس! سماج میں سوتیلی ماؤں کے منفی رویوں کا تو خوب چرچا ہوتا ہے لیکن سوتیلی اولاد کے رویے بھی کچھ ٹھیک نہیں ہیں بلکہ بیشتر رویے ظالمانہ ہوتے جارہے ہیں۔ الا ماشاء اللہ __ اگر سوتیلی اولاد مطلوبہ اسلامی اخلاق و رویہ اپنالے تو آنے والی خاتون کو بھی اپنا گھر بسانا ہوتا ہے وہ بھی ضرور اپنے رویوں میں تبدیلی لائے گی۔
ہمارے سماج کا المیہ ہے کہ جب بھی بدترین رویے کی مثال پیش کرنا ہو اسے سوتیلی ماں کے رویے سے تشبیہ دی جاتی ہے، ایسے واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جس میں سوتیلی ماں ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کرتی نظر آتی ہے، حالانکہ اس کے برعکس سوتیلے رشتوں کے مثبت کردار کو سامنے لایا جانا چاہیے؛ اس لئے کہ بہت سے ایسے سوتیلے والدین موجود ہیں جو مخلص اور محبت کرنے والے ہیں، آنکھوں والوں کے لئے ایسی مثالیں معاشرے میں ناپید نہیں ہیں۔ مثبت رویوں کو سامنے لانے سے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہیں اس رشتے میں بندھنے والے نئے سوتیلے والدین کو بدلنے اور اپنے کردار کی تصحیح کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
منفی باتوں کے چرچے کا نقصان :
معاشرے میں ایسی ہی منفی باتوں اور رویوں کا خوب ذکرِ شر ہوتا ہے، منفی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں جس کے سبب مطلقہ یا بیوہ خواتین نکاح ثانی کے تصور ہی سے کانپ جاتی ہیں تو دوسری طرف بے بیوی مرد بھی ایسے اندیشوں سے نکاح ثانی کے فطری تقاضے کو دبائے رکھتا ہے لیکن حقیقت تو حقیقت ہے کہ جسم کے یہ بے چین تقاضے ایسے ہوتے ہیں جنہیں ضبط کرنا ممکن نہیں، انہیں یادوں سے بہلائیں، تصور و خیال کی وادیوں میں سیر کرائیں تب بھی چپکے نہیں ہوتے، انہیں حلال راستے سے منکوحہ خاتون ہی سے پورا کیا جاسکتا ہے، اور یہاں اسے دبانے کی کوشش ہوتی ہے جو ناکام ہوتی ہے نتیجتاً سماج میں برائیاں عروج پر ہیں، ایسے "بےنکاحے مرد و خواتین" خود بھی گناہوں کی دلدل میں پھنستے ہیں اور سماج کو بھی آلودہ کرتے جاتے ہیں۔
دعوتِ فکر و عمل :
نبویؐ معاشرہ اور عہد صحابہؓ نکاح ثانی کے لئے کیسا سازگار تھا! سوتیلی مائیں نئے گھر میں کیسے گھل مل جاتی تھیں! اِدھر کوئی صحابیؓ شہید ہوئے یا انتقال کرگئے اور اُدھر عدت گزرتے ہی دوسرے شوہر، دوسرا گھر بآسانی مل جاتا تھا۔
___ کیا وہ ماحول دوبارہ پیدا نہیں کیا جاسکتا؟ اور ایسے سماج کے لئے موجودہ رویے بدلنے نہیں ہونگے؟
_____________________
منفی خبریں اور کہانیاں تصویروں کی زبانی:
سوتیلی ماں کا ظلم ... اس عنوان سے کیسی منفی باتیں چلتی ہیں؟ چند خبروں کی سرخیاں اور کہانی کے عناوین؛ ایک نظر دیکھیں تو اندازہ ہوگا، حالانکہ برعکس اس کے سوتیلی اولاد بھی نامناسب سلوک کرتی ہیں لیکن سماج اس سے آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ تصاویر بلاگر پر ___
#قرآن میں غور و فکر
0 تبصرے