#ذاتی ڈائری کے چند اوراق
ثبات؛ ایک تغیر کو ہے زمانے میں
(احاطۂ جامعہ ابوہریرہؓ، بدناپور میں)
✍ نعیم الرحمن ملی ندوی
مؤرخہ 28/ نومبر 2021ء بروز اتوار، یک روزہ اصلاحی، فکری و دعوتی اجلاس برائے ابنائے جامعہ ابوہریرہؓ کا دعوت نامہ موصول ہوا تو راقم بھی تمام مصروفیات بالائے طاق رکھتے ہوئے گویا پرِ شوق کی پرواز سے احاطۂ جامعہ میں اتر گیا۔
بہت بچپن میں یہاں آیا گیا ہوں :
راقم الحروف نے کم و بیش سترہ (17) سال قبل یہاں دینیات سوم مکمل کی بعدہ کچھ سال وقفہ کرکے حفظ کے دَور کیلئے دوبارہ حاضر ہوا اس کے بعد اب حاضری کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ بہت بچپن میں یہاں آیا گیا ہوں ___ راہ کی ٹریفک نے چار گھنٹے کے سفر کو اتنا طویل کیا کہ آٹھ بجے نکلے ہوئے ہم مسافروں کو رات دو بجے سے پہلے نہیں پہنچنے دیا۔ جامعہ کے داخلی دروازے پر نام پتوں کا اندراج ہوا، اندرونِ احاطہ نگاہ ڈالی تو ۱۷ سال قبل کا منظرنامہ بدلا ہوا پایا، نیا جہان، نئی زمین، نیا آسمان نظر آرہا تھا، سارا جغرافیہ تبدیل ہوچکا تھا، عمارتوں کی وہ کثرت کہ ہر طرف بڑی بڑی نئی بلڈنگیں موجود پائی، اب جامعہ اپنے احاطہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی سمیٹے ہوئے ہے، دینی درسگاہ کے ساتھ ایم بی بی ایس کالج، ہاسپٹل وغیرہ بھی جاری ہیں۔ ماضی میں جامعہ کی چھوٹی سی مسجد اب وسیع و عریض مرمریں ٹائلوں سے مرصع "جامع مسجد ابوہریرہؓ" بن چکی ہے، قریب تمام ہی عمارتوں میں اچھا بدلاؤ آچکا ہے۔
زندگی کا پہلا اور انوکھا تجربہ :
آگے بڑھے تو بہت سے ابنائے قدیم کو موجود و منتظر پایا، دیکھا تو ہوش آیا کہ "پرانا مکان" ہی نہیں "پرانے مکین" بھی بدل چکے ہیں، ان کے بچپن کے معصوم چہرے اب شباب کی سرخیوں، سختیوں، مونچھ ڈاڑھی سے بھرے ہوئے الگ ہی ہیئت میں نظر آئے، آنکھیں چار ہوتیں اور بہت دیر دیر تک گھورتے رہنے کے بعد موجودہ چہرے ذہن کے پردوں پر سفر کرتے ہوئے بچپن کے چہروں بشروں تک پہنچتے اور پھر ایکدم ایک دوسرے کا نام پکارتے ہوئے گرم جوشی سے بغلگیر ہوتے رہے، کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا، ہمدم دیرینہ، ہم پیالہ و ہم نوالہ رفقاءِ درس و احبابِ جامعہ سے یہ اور ایسی ملاقات؛ زندگی میں پہلا اور انوکھا تجربہ تھا۔
کچھ تنہا ہوا تو ذہن میں آیت کریمہ کا پیش کردہ منظرنامہ گھوم گیا؛
اور جس دن اللہ ان کو (میدان حشر میں) اکٹھا کرے گا، تو انہیں ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ (دنیا میں یا قبر میں) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے، (اسی لیے) وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے ..... (يونس:45)
میدانِ محشر کی شان ہوگی کہ دیکھتے ہی پہچان لئے جائیں گے اور لگے گا بچھڑے ہوئے بس ابھی گھڑی دو گھڑی، پہر دوپہر ہوئے ہیں۔
جامعہ کے سب سے متحرک استاذ :
اساتذہ میں جامعہ کے ناظمِ تعلیمات مولانا محمد یوسف صاحب ندوی (کانڑ گاؤں) جو اس پروگرام سے ذاتی دلچسپی بھی لے رہے تھے اُس وقت بھی مہمان ابنائے قدیم کا پروگرام ترتیب دینے کیلئے بیدار اور سرگرم عمل نظر آئے، ان سے اور مولانا عبدالعلیم صاحب سے تعارف و ملاقات ہوئی، مولانا محمد یوسف صاحب ندوی نے نام سنتے ہی پہچان لیا، خوشی کا اظہار کیا اور کیوں نہ پہچانتے! آپ ہی نے تقریر کی سمت میں راقم کی بہترین رہنمائی فرمائی، آپ ہی کی محنت و توجہ کا ثمرہ تھا کہ سال کے آواخر کے تقریری مسابقات میں ممتاز نمبر اور بڑا انعام تواتر سے حاصل ہوتا رہا اور ایک مرتبہ دھولیہ شہر کے مشہور سالانہ تقریری مقابلے میں شرکت کیلئے منتخب کیا گیا اور ایک بڑا انعام حاصل ہوا۔ آپ قلم کے دھنی ہیں، آپ کی قلمی تقریروں کے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں، بلا کے ذہین و فطین اور پختہ صلاحیت کے مالک ہیں، ندوی وسعتِ ظرفی، بلند نگاہی اور سادہ مزاجی آپ میں نمایاں نظر آتی ہے، آپ جامعہ کے سب سے متحرک استاذ محسوس ہوتے ہیں۔
اہتمامِ سحرگاہی:
رات ساڑھے تین بجے تک بستروں پر دراز ہوسکے لیکن فجر کیلئے بلا رو رعایت بیدار کرکے مسجد میں پہنچا دیئے گئے، اسی ایک منہ اندھیرے بیدار کردینے اور اہتمامِ سحرگاہی نے 18_20 سال قبل کے جامعہ میں گزرے عہدِ طفلی کے زمانۂ طالب علمی کو ذہن میں تازہ کردیا۔
دو محسن اساتذہ :
فجر کے بعد دوبارہ نوواردینِ جامعہ سے ملاقاتیں ہوئی، سردی خوب بڑھ گئی تھی لیکن ملاقات کی گرمجوش بغلگیری نے ٹھنڈک محسوس نہ ہونے دیا۔ اساتذہ میں مولانا محمد شکیل صاحب (پارڈگاؤں) اور مولانا محمد رمضان صاحب (مالیگاؤں) سے تفصیلی ملاقات ہوئی، اساتذہ میں ان دونوں حضرات سے خصوصی تعلق رہا ہے، مولانا محمد رمضان صاحب راقم کے خالہ زاد بڑے بھائی بھی ہیں اور آپ ہی نے اس جامعہ میں داخلہ کروایا، تعلیمی رہنمائی کی، اور آخر تک نگرانی بھی فرماتے رہے۔ آپ اچھے کاتب و خوش نویس ہیں، جامعہ اور اس سے لگ کر فریدہ آباد وغیرہ علاقوں میں بھی آپ کی خوش نویسی اور اردو کتابت کا فیض جاری ہے، اس طرح آپ اردو زبان کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ آپ ہی نے مالیگاؤں میں جامعہ ابوہریرہؓ کا فیض جاری کیا، جامعہ کے فیض یافتہ مالیگاؤں کے اکثر طلبہ کو آپ ہی نے یہاں لاکر داخلہ کروایا، یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء __
مولانا شکیل صاحب سے دینیات سوم میں باقاعدہ شرفِ تلمذ حاصل ہوا لیکن آپ نے بھی تاقیامِ جامعہ ہمیشہ پدرانہ شفقت و خبرگیری کا معاملہ فرمایا، بڑے بااخلاق، ملنسار طبیعت کے مالک ہیں۔ دونوں ہی حضرات مالیگاؤں کے مدرسہ محمدیہ کے فیض یافتہ بھی ہیں، اس لئے بھی طلبۂ مالیگاؤں سے خصوصی والہانہ تعلق رکھتے ہیں۔ راقم کے والدِ بزرگوار (مولانا ابواسامہ یوسفی) سے کچھ تعلقِ تلمیذی بھی رکھتے ہیں جس کے سبب آپ سے استاذ زادے کی سی عزت بھی پاتا رہا ہوں۔ اطال اللہ بقائہما ___
سابق ناظم جامعہ مولانا عبدالوہاب صاحب بیتی دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہوئے، خیریت دریافت کرتے ہوئے بزرگانہ شفقت کا برتاؤ کیا۔ مد اللہ ظلہ العالی
لیت الطفولیۃ تعود :
ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اساتذہ میں مولانا سلیم صاحب مکرانی، مولانا سلیم صاحب جلگانوی، مولانا انوار صاحب، مولانا نثار صاحب، مولانا ایوب صاحب نمبائتی، قاری محمد صاحب دھولیہ، اور دیگر اساتذہ سے مصافحہ، معانقہ اور پرلطف گفتگو رہی۔ مولانا ایوب صاحب نے صبح کی ہلکی دھوپ میں مسرت آمیز منظر دیکھتے ہوئے کہا __ دیکھ کر دلی تمنا ہورہی ہے "لیت الشباب یعود : کاش کہ جوانی لوٹ آئے!" راقم نے کہا اور ہم لوگوں کی تمنا ہورہی ہے "لیت الطفولیۃ تعود : کاش کہ بچپن لوٹ آئے!" سارے احاطۂ جامعہ میں تفصیلی گشت لگاتے ہوئے مسجد میں آکر کچھ وقت آرام کئے۔
تاثراتی پروگرام :
ظہر تا عصر متعینہ پروگرام تھا جس میں قدیم فارغین نے اپنے تاثرات پیش کیے، اساتذہ نے نصیحتیں کیں اور سابق ناظم جامعہ مولانا عبدالوہاب بیتی صاحب نے خطبہ صدارت پیش کیا، اہل خانہ کو گھر کے ایک بزرگ کی نصیحت کرنے کی طرح آپ نے بہت اچھی دلپذیر نصیحتیں کی۔ جامعہ اگر ایک کھیتی ہے تو بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی سینچائی میں آپ کا لہو ہے، اپنی عمر کے بیش قیمت چودہ سال آپ نے جامعہ کی آبیاری میں صَرف کئے، میرے مشاہداتی سترہ سال قبل کا جامعہ اور آج کا جامعہ آپ کے شبانہ روز جدوجہد کا گواہ ہے، آپ جامعہ تشریف لائے تھے اس وقت ایک چھوٹی سی عمارت اور جامعہ کا چھوٹا سا قطعۂ زمین تھا اور آج جامعہ میں عمارتوں کا بکھرا ہوا ایک طویل سلسلہ ہے اور پھیلی ہوئی کئی درجن ایکڑ زمین جامعہ کی ملکیت میں ہے۔
ہم کسی کو گواہ کیا کرتے
اس کھلے آسمان کے آگے
(پروگرام یوٹیوب پر اپلوڈ کئے جارہے ہیں شائقین دیکھ سکتے ہیں۔)
اساتذہ کی قربانی :
دل پر بڑا گہرا اثر ہوا، جذباتِ ترحم کی لہریں اٹھیں اور ان خلوص و محبت کے پیکر اساتذہ کی قربانیاں یاد آئی، بچپن میں بیشتر اساتذہ کو دیکھا تھا چہرے پر شباب کی سرخیاں دوڑ رہی تھیں، بالوں میں سیاہی تھی، لیکن اب ان کے بالوں، گالوں پر سفید چاندی اتر رہی ہے۔ احساس ہوا کہ یہ کیسے مخلص لوگ ہیں جو اپنی جوانی، ادھیڑی اور کہولت بھی ابنائے قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے تج دیتے ہیں۔ قلیل تنخواہوں پر شہری سہولتوں سے محروم رہ کر اس طرح تعلیم و تربیت کے لئے پوری زندگی بِتا دینا یہ بس انہیں وارثینِ نبی، معلم انسانیت ﷺ ہی کی شان ہے۔ جامعہ ابوہریرہؓ اور اساتذۂ جامعہ بدناپور اس کی بہترین مثال ہیں۔ اللہ پاک انہیں دارین میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین
ابنائے جامعہ اورنگ آباد :
ابنائے جامعہ اورنگ آباد قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے واقعی قابل ستائش کام انجام دیا، اس پروگرام کا خیال و تصور انتظامیہ کو انہوں نے ہی پیش کیا، تمام انتظامی امور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بخیر و خوبی انجام تک پہنچایا، اگر یہ پروگرام نہ ہوتا تو پتہ نہیں ناظم صاحب، دوسرے بزرگ اساتذہ اور بچپن کے رفقاء درس سے پھر زندگی میں کبھی ملاقات ہوپاتی یا نہیں!!
پروگرام اپنے مقصد میں بہت کامیاب رہا اور ذاتی طور پر بھی شرکت بہت مفید معلوم ہوئی۔ دعا ہے اللہ پاک ان کو اپنے شایانِ شان کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
قدیم جامعہ تصویروں کی آئینے میں :
قدیم جامعہ تصور کی بزم میں بسا ھوا، سجا ہوا تھا، آنکھیں پھر انہی مناظر کی طالبِ دید تھیں، بھلا ہو استاذ محترم مولانا شکیل صاحب کا کہ آپ نے اپنے پاس موجود تمام قدیم نایاب تصاویر کا البم راقم کے سامنے پیش کر دیا، دل کو بہت خوشی ہوئی۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء __ کچھ اہم قدیم تصویریں پیش ہیں۔
0 تبصرے