⬆️ گذشتہ سے پیوستہ ⬇️
"موجودہ بیویاں" ہی اپنے شوہروں کے حق میں "بہترین" (تیسری قسط)
✍نعیم الرحمن ملی ندوی
بیوی بلائے آسمانی نہیں بلکہ آسمان والے کی نشانی :
کچھ لوگ اس رشتے کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور بیچاری "بیوی" کو خوب ہدفِ استہزاء بناتے ہیں، جملہ کستے ہیں، لطیفے بناتے ہیں، مزاحیہ اشعار کہتے ہیں لیکن یہ بھی کیسی بردبار مخلوق ہے کبھی سرعام آکر شوہروں کے خلاف احتجاج نہیں کرتی، کوئی مہم نہیں چلاتی، قلم نہیں اٹھاتی، بس اپنی شکایت شوہروں سے چار دیواری میں پیش کرکے چپ رہ جاتی ہے، لیکن حد سے گزرنا ہوگا جب ہر بیوی کو "بلائے آسمانی" قرار دیا جانے لگے۔ کسی نے کہا ہے
سنا یہ ہے بنا کرتے ہیں جوڑے آسمانوں پر
تو یہ سمجھیں کہ ہر بیوی "بلائے آسمانی" ہے
اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر ہی سہی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیویوں کی کچھ فضیلت بیان کی جائے اور کچھ نگاہِ تفکر سے دیکھتے ہوئے ان کے خیر و خوبی کا اعتراف کیا جائے۔
کہنے والا انہیں "بلائے آسمانی" کہنے سمجھنے کی گویا اجازت مانگ رہا ہے، ہم اسے بالکل اجازت نہیں دے سکتے، حقیقت اس سے مختلف ہے، اس رشتے کی اہمیت دوسرے رشتوں سے کم نہیں ہے، خاتون والدہ ہوتی ہے، بہن بھی اور بیٹی بھی، سبھی رشتوں میں جذباتی آہنگ الگ الگ ہے اور اپنی جگہ ہر رشتہ بے مثال ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ رشتہ زوجین میں کچھ ایسی امتیازی باتیں ہیں جو دوسروں میں نہیں ہوسکتی اور یہی باتیں اسے دوسرے رشتوں سے ممتاز بناتی ہیں۔
1) مرد و عورت کے ہر قسم کے تمام رشتوں کا وجود بعد میں ہوا ہے پہلے مردوں کے ساتھ ان کا رشتہ اسی "بیوی" کا جوڑا گیا۔
2) اس رشتے کے پہلے جوڑے کو "جنت میں حبالۂ عقد سے جوڑا گیا" اس کے بعد زمین پر اتارا گیا۔
3) خاتون پہلے "بیوی" بنی ہے پھر والدہ بنی، اس کے بعد باپ کی بیٹی اور بھائی کی بہن بنی ہے۔
4) "ازدواج" یہ ایسا عجیب و غریب رشتہ ہے کہ اس رشتے میں خاتون اپنے شوہر کو ہر قسم کی راحت و سکون مہیا کرتی ہے اور ایسے تقاضوں کو پورا کرتی ہے جو دوسرے تمام "خاتونی رشتے" نہیں کرسکتے۔
5) "مرد" اس رشتے سے وہ ذہنی و قلبی راحتیں اور جنسی و جسمانی سکون حاصل کرتا ہے جس کو دوسرے خاتونی رشتوں سے حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر خالقِ انسان اللہ پاک نے خاص "بیویوں" کو اپنی نشانیوں اور آیات میں شمار کرایا ہے اور غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے اس رشتے میں اپنی یعنی خالق کی پہچان رکھی ہے، ارشاد ہے؛
ترجمہ: اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کی، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیئے، یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ (الروم: 21)
6) قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں دوسرے رشتوں یعنی دنیا کے ماں باپ، بھائی بہن کے علاوہ اس قسم کے نئے رشتے وجود میں آنے کا ذکر نہیں ہے لیکن ازدواج کے رشتے کا ذکر اس بات کے ساتھ بصراحت ملتا ہے کہ موجودہ ازدواجی رشتے باقی بھی رہیں گے اور نئے رشتے وجود میں بھی آئیں گے، اللہ پاک دنیا کی جنتی عورتوں کو نیا شباب عطا فرمائیں گے، ارشادہے ؛
یقین جانو، ہم نے ان عورتوں کو نئی اٹھان دی ہے۔ ۞ چنانچہ انہیں کنواریاں بنایا ہے۔ ۞ (شوہروں کے لیے) محبت سے بھری ہوئی، عمر میں برابر ۞ (الواقعة: 35-37)
اور خاص جنتی عورتوں "حورِ عین" کے متعلق فرمایا ؛
اس سے معلوم ہوا کہ یہ رشتہ "بلائے آسمانی" نہیں بلکہ "آسمان والے کی قدرت کی نشانی" ہے، اس کی قدرتِ تخلیق کی شاہکار، مردوں کے لیے موردِ سکون اور رحمت و مودت کی ایک بے مثال مورت ہے، خاتون ماں ہے تو اولاد کے لئے جنت، بہن بیٹی ہے تو اچھی تعلیم وتربیت پر بھائی اور باپ کے لئے جنت میں داخل کرنے والی اور بیوی کے روپ میں "خالقِ کائنات کی نشانی" ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ نے آدمی کے بہترین اخلاق والے ہونے کا معیار "اہلِ خانہ" کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو قرار دیا، اور اہلِ خانہ میں "بیوی" مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ارشاد ہے؛
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہوں۔
ہماری بیویاں" دنیا کی حوریں" :
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ہندوستان پاکستان کے معاشرے کی خواتین "دنیا کی حوریں" ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان کے اندر وفاداری کا وصف ہے۔ جب سے مغربی تہذیب کا وبال آیا ہے تب سے یہ وصف بھی کم ہوتا جا رہا ہے لیکن اللہ تعالی نے ان کے اندر وفاداری کا ایسا وصف رکھا ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے لیکن یہ اپنے شوہر پر جان نثار کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں اور ان کی نگاہ اپنے شوہر کے علاوہ
کسی اور پر نہیں پڑتی۔
_____________________
دعوتِ فکر و عمل :
مضمون سے مدلل انداز میں یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی کہ "ہر شوہر کی بیوی، اور ہر بیوی کا شوہر" اس کیلئے بہترین شریکِ زندگی ہے، اس لئے کہ یہ پیدا کرنے والے "حکیم پروردگار کا انتخاب" ہے اور اس کی محکم تقدیر کا حصہ ہے۔ اگر یہ خیال آئے کہ "موجودہ بیوی" کے بجائے "فلانہ" میری بیوی ہوتی تو اچھا تھا، بیوی سوچے کہ اگر "موجودہ شوہر" کے بجائے "فلاں" میرا شوہر ہوتا تو بہتر تھا تو یقین جانیں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ خیال اس لائق ہے کہ اسے ذہن کی تختی سے مٹادیا جائے، اس پر پانی بہادیا جائے، اگر کسی کے حق میں موجودہ شریکِ حیات سے بڑھ کر کوئی دوسری یا دوسرا بہتر ہوتا تو ماں باپ سے بڑھ کر شفیق و مہربان اور خیرخواہ کاتبِ تقدیر اسے ہی مقدر و میسر فرماتا، اس لئے اِدھر اُدھر نگاہ سے بچتے ہوئے موجودہ پر ہی اکتفا کیا جانا چاہیے اور اس کی خیر و خوبی کا احساس اور اعتراف کرتے ہوئے اسی کے ساتھ زندگی بہتر سے بہترین بنانے کی سعی و تدبیر کرنا چاہیے۔
دعا ہے ؛ اللھم قنعنا بما رزقتنا وبارک لنا فیھا۔ اللھم اکفنا بحلالک عن حرامک.
_____________________
نوٹ : یہ باتیں "للاکثر حکم الکل" کے تحت ہیں ورنہ تو "ہر کلیہ میں مستثنیات" ہوتے ہیں۔
0 تبصرے